متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ
السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ کچھ انجینئرنگ کے بارے میں10 تبصرہ (جات)۔ Sunday, May 24, 2009(مختصر مختصر سے منتقل شدہ) “انجینئرنگ” دو الفاظ پہ مشتمل ایک اصطلاح ہے۔ ‘انجن’ اور ‘رِنگ’ ؛ انجن کے بارے میں سب لوگ جانتے ہی ہوں گےکہ یہ ایک ایسی چلتی پھرتی شے ہے جو “چھُک چھُک ” کی رٹّی رٹّائی آواز نکالتا آگے یا پیچھےکی سمت میں رواں رہتا ہے۔ رِنگ ایک ایسی گول شے ہے جس کے سِرّے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ یوں اس لفظ کا مطلب نکلتا ہے کہ انجینئرنگ کسی انجن یا اس سے مشابہ (یعنی کسی بھی چلتی پھرتی!) چیز کا ایک گول دائرے (یعنی رِنگ) میں چکر لگائے جانا اور رٹّی رٹّائی آوازیں نکالے جانے کا نام ہے۔۔۔۔ مندرجہ بالا تفصیل سے انجینئرنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے کہ انجینئرنگ کرنے والے بھی گویا ایک آواگونی چکر یعنی رِنگ میں مقیّد ہیں جو پہلا سیشنل ، دوسرا سیشنل اور ٹرمینل یعنی فائنل امتحان ( یونیورسٹی طلباء خصوصاً کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے ) کے تین تکلیف دہ ادوار پر مشتمل ہے۔ (بہت سے تعلیمی اداروں میں دو ادوار پر مشتمل “چکر” بھی رائج ہے!) یہ مخلوق یعنی انجینئر بھی انجن کی طرح اپنی رِنگ نما پٹری پر کولہو کے بیل کی مانند، ان تین یا دو اسٹیشنوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔ غصّے سے دھواں دھواں ہونا اور احتجاجاً ایک ہی طرح کی آوازیں نکالنا بھی ان کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔لیکن انجن کی طرح ان کے شور سے بھی کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔ اس انجن سے منسلک ریل (یعنی بستہ یا تھیلے) میں کئی کورس کی کتابیں سواریوں کی صورت اترتی چڑھتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ یوں جب یہ انجن کم و بیش ( جس میں بیشی کے امکانات زیادہ ہیں!) چار سال لگاتار رِنگ میں گھومتے رہنے کے بعد تھک یعنی “ریٹائر” ہو جاتا ہے تو اس کے آخر میں حرف “ر” کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو اسکی جسمانی حالت سے زیادہ ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے۔ ۔ یعنی کہ اب وہ انجن(ر) بن گیا ہے (جیسا کہ روایتاً تھک جانے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے!) ۔ ۔ ۔ اور اب اگر اس لفظ اور ‘اعزاز’ کو ملا کر پڑھیں گے تو عرفِ عام میں “انجینئر” کہلائے گا۔
اردو ہے جس کا نام4 تبصرہ (جات)۔ Thursday, May 21, 2009۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ) اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے لو جی! یہ کیا بات کر دی؟ اردو سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ ۔ ۔ ہمارے پاکستان میں تو بچہ بچہ اردو بولتا ہے!۔ ۔ ۔ اور تواور میرا ڈیڑھ سال کابھتیجا بھی بہت شُستہ اردو بولتا ہے! بس ذرا ‘س’، ‘ش’ اور ‘ذ’،’ز’،’ج’،’ظ’ اور ‘ض’ میں تمیز نہیں کر سکتا ٹھیک سے۔ ۔ ۔! خیر یہ تو ‘ ایکسٹرا پرافیشنسی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی اردو سیکھنے سکھانے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو قصہ اس اجمال کا کچھ یوں ہے کہ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب تقریباً سات سال پہلے وطن عزیز سے پردیس گئے تو وہاں سے واپسی پر ایک عدد ولندیزی خاتون کو ہماری بھابھی بنا کر پاکستان لائے [سچے اور پکے پاکستانی ہونے کی نشانی۔] اب پاکستانیوں کی غیر ملکی زبان سیکھنے کی “لرنِنگ کروّ”(سیکھنے کی صلاحیت کا گراف) کچھ زیادہ ہی ہے لہٰذہ ہوا یہ کہ وہ تو اردو میں بس “سلام لیکم” ، “کی حال اے؟” یا “ٹھیک او ” ہی سیکھ سکیں لیکن ہم کافی استفادہ کر گئے!
یوں بھی جناب اردو کی تو کیا ہی بات ہے، منہ اور حلق کا شائد ہی کوئی حصہ ہو گا جہاں حروفِ تہجی میں سے کسی کی رسائی نہ ہو۔ ! اور سونے پہ سہاگہ بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب نے” چنگی طرح” سمجھا بجھا کر ش، ق درست کروائے تھے۔ اب بیچارے جرمن بولنےوالوں کا کیا قصور کہ ان کی زبان میں ۲۶ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ (کچھ واول حروف بھی ہیں ) حروف جتنی لچک ہے!! جن میں سے کچھ تو ایک سی آوازیں نکال کے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ۔ اب باقی بچنے والے بھی اردو کی ‘ر’، ‘ج’، ‘چ’، ‘ز’، ‘ذ’، اور تو اور ‘ی’ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ ہاں ، لفظ” نہیں ” کا پنجابی ہم پلہ لفظ ” نئین” موجود ہے اور مطلب بھی نفی ہی ہے۔ ۔ ۔یوں کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ وہ “اِک، دو، تِن” کرنا تو سیکھ ہی جاتے ہیں۔ ۔ بقول غیر اردو یافتہ افراد کے سب سے بڑی مشکل اردو عربی یا فارسی سیکھنے کی یہ ہے کہ ان کے حروف مفرد حالت میں اور ہوتے ہیں جبکہ الفاظ میں ان کا رنگ تو خیر نہیں ‘انگ’ اور ڈھنگ ضرور بدل جاتا ہے! اب ‘ج’ کو ہی لیجیے، تنہائی میں تو پیٹ نکال لیتی ہے، جیسے ہی کوئی دوسرا حرف دیکھتی ہے ایسے سمٹ جاتی کہ محض نقطہ ہی رہ جاتا ہے اور ‘ر’ تو مزید “گِر” جاتی ہے! اسی طرح باقی حروف بھی عجیب و غریب ہیئت ِظاہری و باطنی رکھتے ہیں۔ اب ہماری بھابھی صاحبہ کو اردو سیکھنے کا شوق پھر سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی رومن اردو میں اردو سیکھنے کی کتاب ہونی چاہئے، تا کہ وہ الفاظ کو پڑھ سکیں ناکہ ان کی اشکال میں ہی گم ہو جائیں۔ اب انہیں میں یہ کیسے بتاؤں کہ میں نے تو آج تک کوئی “اردو سیکھیں” نامی کتاب عربی رسم الخط میں نہیں دیکھی تو رومن میں کہاں سے لاؤں! یہاں”انگریزی سیکھیں، صرف ایک ہفتے میں”، “انگلش ٹیوٹر”، “انگلش گرو” ،”انگریزی بولیں ،امریکیوں کی طرح” وغیرہ، تو ہر شہر کے ‘اردو بازار’ میں با آسانی ملتی ہیں لیکن اردو کی خرید و فروخت کا بہرحال کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ۔ ۔ ۔!! خصوصی نوٹ: اس مضمون میں اگر کوئی اردو املاء کی غلطی پائی جائے تو اسے کلیدی تختے کے لے آؤٹ کی غلطی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس “رومن اردو” سیکھنے کا کوئی نسخہ موجود ہو تو ضرور بتائے، اردو سیکھنا سکھانا ایک کارِخیر ہے خواہ رومی ہو کہ رازی! عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔2 تبصرہ (جات)۔۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ) اس تحریر پہ کیے گئے تبصرے پڑھنے کیلئے ذیل کے ربط پہ جائیں۔
عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔ (گزشتہ سے پیوستہ) ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان1 تبصرہ (جات)۔اردو ٹیک ڈاٹ نیٹ پر موجود میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے ایک مزاحیہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس تحریر پر کیے گئے تبصرے آپ اس ربط پہ پڑھ سکتے ہیں:۔
عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط۔ ۔ ۱):۔ ملکِ عدم سے آنے والے جہاز میں سفر کرنا ہمارے لئے زندگی کے بعد کا سب سے اچھا سفر رہا۔ اپنی زندگی میں تو ہم نے بحری جہاز کے پانی پر تیرنے کے بارے میں سوچا تھا تو غش کھا گئے تھے کجا کہ اس دیوہیکل ہوائی جہاز میں اڑنا! خیر جیسے تیسے کر کے ٘منزل تک جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک بھلی سی خوش پوش خاتون نے ہمیں ایک سو پینتالیس نمبر کی نشست پہ بٹھا دیا۔ نشست کیا تھی میاں، ہمیں تو دہلیٔ مرحوم کا تخت یاد آ گیا۔ پھر وہی خاتون ہمارے لئے رنگ رنگ کے مشروب اور اشیائے خورد لے آئیں (لگتا تھا کہ جہاز ان کے مجازی خدا کا ہے جو اتنی خاطر مدارات کر رہی ہیں!)، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اس جہاز کی خادمہ ہیں جنہیں ‘فضائی میزبان’ کہا جاتا ہے۔ نشست کو دیکھ کر ہم سوچ رہے تھے کہ جب رعایا کے لئے ایسی نشست ہے تو باشاہ کا کیا عالم ہو گا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارے ضمیر سے بآوازِ بلند ایک ‘ زنانہ’ آواز آئی “پی آئیے! میں خوش آمدید” نوٹ: اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو تبصرہ ضرور کریں تا کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھا سکوں۔ اور اگر پسند نہیں آئی تو بھی تبصرہ ضرور کریں ورنہ میں مزید لکھنے سے ہرگز باز نہ آؤں گا! ہر جگہ میرے چمکنے سے!۔1 تبصرہ (جات)۔پچھلے مہینے علامہ اقبالؒ کی برسی پر بہت سوچ بچار کے باوجود بھی میرے ذہن میں لکھنے کے لیے کچھ نہ آیا۔ آجکل نجی چینلوں پہ ایک کمرشل بہت چل رہی ہے جو اقبال کی مشہورِزمانہ نظم “بچے کی دعا” کے ایک مصرعے سے شروع ہوتی ہے۔ مزارِاقبال کے احاطے میں سفید اجلے لباس میں سکول کے بچے بلند آواز میں پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے۔ ۔۔ ۔ کچھ دن تک یہ اشتہارایسے ہی چلتا رہا یعنی صرف اس مصرعے تک۔ ۔ ہم سوچتے رہے کہ شاید کوئی نیا پروگرام ہے یا کلامِ اقبال پر کوئی نئی ویڈیو بنائی گئی ہے یا شایداقبال شناسی کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے عوام میں۔ ۔ لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا جب مکمل اشتہار دیکھا۔ یہ اشتہار ہے ” گائے سوپ” کا، جن کا پیغام ہے: ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے گائے سوپ اجلا بنائے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔! ایک وہ زمانہ تھا (جنہیں میرا دوست “سچّا زمانہ” کہہ کر ‘ یاد ‘ کرتا ہے، حالانکہ عمر میں مجھ سے بھی چھوٹا ہے!) جب قوم کے قلب و نظر کی پاکیزگی کی لیے کلامِ اقبال کا سہارا لیا جاتاتھا، اور اب قوم کی ” چڈّی و بنیان” کی صفائی کے لیے۔ ۔ ۔!! بڑھتی ہوئی اشتہاربازی(یا کمرشلائیزیشن) سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ کل کو کوئی نازنین اپنے لمبے گھنے بال سنوارتے ہوئے کسی شیمپو کے اشتہار میں کہے گی: “گیسوئے تابدار کو اور تابدار کر”۔ ۔ ۔ ۔۔!۔
نوٹ: یہ تحریراردو ٹیک پر میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے یہاں منتقل کی گئی ہے، اس پر کیے گئے تبصرے پڑھنے کے لیے آپ اس ربط پہ کلک کریں۔ تکلیف کے لیے بہت معزرت!۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
خوش آمدید
بلاگ پر تشریف آوری کا بہت شکریہ۔
پیش لفظ: اس بلاگ کو بہترین حالت میں دیکھنے کیلئے اردو نستعلیق فونٹ اوپر دئے گئے ربط(لنک) سے ڈاؤنلوڈ فرمائیں۔ آپ نے ’قِصہ چہار درویش‘ کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا، ہو سکتا ہے پڑھا بھی ہو(میں نے صرف سنا ہی ہے!۔)۔ قصہ لکھنے والے اِس پانچویں درویش کو بھول گئے، لہٰذا اسے خود ’کِی بورڈ‘ سنبھالنا پڑا۔ بلاگ کے کنٹینٹ (Content)کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا سکتا کہ ایک نوجوان کے دماغ میں جو کچھ بھی آ سکتا ہے وہ اس بلاگ پر چھَپ جائے گا۔۔۔ ایک بار پھر شکریہ۔ ولسلام زمرہ جات / ٹیگز
مفید اُردو ویب صفحاتپسندیدہ بلاگز
Email کے ذریعے سبسکرائب کریںدوست احبابلائیو ٹریفک فیڈ
اس بلاگ کے جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں. Powered by Blogger.
|