امریکی ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر کریگ وینٹر(Dr Craig Ventor)جنہوں نے یہ کامیاب تجربہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نئے صنعتی انقلاب کی جانب اہم قدم ہے۔ اس طریقہ کار کی کامیابی سے مصنوعی ڈی این اے میں اپنی مرضی کا جینیاتی کوڈ شامل کیا جا سکتا ہے اور پھر اس ڈی این اے کو زندہ خلیوں میں داخل کر کے اپنی مرضی کے نتائج کے حامل جاندار خلیے بالکل قدرتی انداز میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ یا جینیٹک کوڈ (Genetic Code) کسی بھی جاندار کی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جانداروں کی قدرتی و موروثی و جبلتی خصوصیات وغیرہ سب اسی جینیاتی کوڈ میں چھپے ہوتے ہیں اور ڈی این اے اسی مخصوص جینیاتی کوڈ کی وجہ سے ہر جاندار کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تجربے سے مختلف خوردبینی جانداروں مثلاً بیکٹریا وغیرہ کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ ہوا کو مضرِ صحت اجزا سے پاک کرنےاور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجذاب سے لے کر گاڑیوں کیلئے ایندھن کی تیاری تک کا کام لیا جا سکے گا۔
بہرحال یہ سب تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ محض دیوانے کا خواب ہے اور اس طرح کی تحقیق سے ابھی تک کوئی عمومی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مذہبی حلقوں میں حسبِ سابق اس طرح کی تحقیق اور خبروں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور اس طرح کے تجربات کو خدا کی تخلیق میں دخل اندازی گردانا جاتا ہے۔
اس مضمون کے حوالہ جات:
ویلز آنلائن نیوز
arstechnia.com
0 تبصرہ (جات)۔:
Post a Comment
بلاگ پر آنے کا شکریہ۔اس تحریر پر تبصرہ کرکے آپ بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچائیں۔
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز) میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے (سفید) میں کاپی پیسٹ کر دیں۔ اردو ٹائپنگ کیلئے آپ نیچے دیئے گئے On Screen کی بورڈ سے مدد لے سکتے ہیں۔۔