متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ
Showing posts with label تصاویر. Show all posts
Showing posts with label تصاویر. Show all posts

ڈُوڈل آرٹ Doodle-Art

18 تبصرہ (جات)۔ Friday, July 9, 2010
بچپن سے مجھے یہ عادت رہی کہ جب مین کچھ سن رہا ہوں، خاص طور پر کمرہ جماعت  میں(یا لیکچر ہال میں)  تو میرے ہاتھ چلتے رہتے ہیں۔ سامنے کتاب ہو، کاپی ہو یا پھر ڈیسک تو ہوتا ہی ہے تو جو بھی قلم یا پین ہاتھ میں ہے ، وہ بس آگے پیچھے، دائیں بائیں چلتا ہی رہے گا۔ لکیریں، پھول بوٹے، دائرے، دستخط، نام یا لیکچر میں سے کوئی ایک خاص لفظ بار بار مختلف انداز میں، بس کچھ نہ کچھ تخلیقی مراحل میں رہتا ہی ہے ۔  اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہوتا تھا کہ میں سن نہیں رہا ہوتا، بس یہ عادت سی بن گئی ہے۔ سکول کے علاوہ کیونکہ سکول کی کاپیوں یا کتابوں پہ تو کچھ بھی ’آف دا ریکارڈ‘ لکھو یا بناؤ تو  شامت ہوتی تھی۔ کالج اور پھر یونیورسٹی میں اساتذہ کی یہ ’اجارہ داری‘ ہماری کتابوں ، کاپیوں یا رجسٹروں پہ نہیں رہتی سو ہر ایک لکھنے کے قابل صفحے پر میں کچھ نہ کچھ حصہ اس گلکاری کیلئے ضرور خود بخود ہی مختص کر دیتا ہوں (پہلا صفحہ ، اور ہر صفحے کا اوپری حاشیہ تو میرا ہوتا ہی ہے!)۔ کئی دفعہ اس عادت سے تنگ آکر اور بعض اوقات ضروری پوائینٹس ان گلکاریوں میں گنوا دینے کی باعث میں نے اس عادت کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ اور  صفحات کو انتہائی صاف رکھنے کی مہم چلائی۔ سنتے سنتے اچانک یاد آیا کہ اوہو! تاریخ تو لکھنا ہی بھول گیا آج کی۔ سو سر کی بات سنتے اور سر دھنتے ہوئے ہاتھ غیر محسوس انداز میں چلنا شروع ہوا۔۔۔ یہ کیا میں تو تاریخ لکھ رہا تھا اور یہ میں نے ’جولائی‘ کو ڈریگن کیسے بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔! یہ ’2010‘ کی آنکھیں اور ناک۔۔۔۔۔۔۔ اف توبہ! میں نہیں رہ سکتا بے معنی لکیروں کو شکل دئیے بغیر!! بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں، جیسے کہ ڈاکٹر حضرات (جی ہاں، وہی نفسیاتی) اسے ذہنی کشمکش اور ذہن پہ کسی بوجھ یا فرار کی راہ قرار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ درست بھی ہو۔ بورنگ لیکچر سے کون فرار نہیں چاہتا!
وجہ جو کوئی بھی ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپنی ساری زندگی اس خود ساختہ ’ آرٹ کی خدمت‘ کرنے کے بعد کچھ ماہ پہلے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ جو میں "کچ مچوڑے" ڈالتا رہتا ہوں یہ تو  ایک نئی اور جدید آرٹ کی قسم ہے جسے انگریزی میں ’ڈوڈل‘ یا Doodle Art کہتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ در حقیقت کچھ بھی بنانے کا نام ہے۔ جی ہاں کچھ بھی! ایسی تخلیقات جو آپ اپنے تخیل کو استعمال کرتے ہوئے بناتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے ان کا کوئی ظاہری تھیم  نہ  ہو یا بس وہ صرف ایک صفحہ بھرنے کی مشق ہو یا خالی خولی دائروں میں ہی کوئی نقطہ ڈھونڈ کر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے۔۔۔۔۔۔۔ ہوں۔ یعنی کہ اصل میں یہ کوئی آرٹ نہیں ہے ، بس یہی اس کا آرٹ ہے۔
ڈوڈل آرٹ کے بارے میں آپ یہاں، یہاں اور یہاں سے مزید جان سکتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ کی اصل بات یہ ہے کہ ہر کوئی’ ڈوڈلتا‘ ہے اور ہر کوئی ڈوڈل بنا  سکتا ہے۔ّ

میں کچھ عرصہ پہلے اپنی  یونیورسٹی کی طرف سے یو ای ٹی لاہور میں ہونے والے ڈوڈل مقابلے میں شامل ہوا تھا۔ اسی مقابلے کی بدولت مجھ پر اپنی اس ’صلاحیت‘ اور’ بیش بہا آرٹ ‘کا حادثاتی طور پر ادراک ہوا تھا۔
تو پھر لیجئے حاضر ہیں میری کچھ ذاتی ڈوڈلیاں۔۔۔
سب سے پہلے کچھ ’پری ڈوڈل‘(pre-Doodle)۔۔۔۔ جو اصل میں اس سب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔


 میرے اصل "کچ مچوڑے" ردی کی صورت میں گھر پڑی کتابوں کاپیوں میں ہیں، اور کالج کے زمانے کے صفحوں پر تو میں نے وہ تباہی پھیری ہوئی ہے’ آرٹ‘ کی کہ بس۔۔۔ ایف ایس سی کی  اردو کی کتاب میں تو میں نے اپنی لیکچر دیتی ہوئی قابل صد احترام استانی صاحبہ کا پورٹریٹ بھی بنایا ہوا ہے۔ امتحانوں میں تو فنونِ لطیفہ و غیر لطیفہ میرے سر پہ سوار ہوتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے ہی کئی ڈوڈل میری قلم کی گود سے جنم لیتے رہتے ہیں۔(ایک الگ پوسٹ میں نمائش کیلئے ضرور شائع کروں گا!)
یہ جو نیچے والے دوڈل ہیں یہ اصل میں ڈوڈل سمجھ کر ہی بنائے گئے ہیں اور زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ یہ سب مقابلے سے پہلے کے ہیں۔ کچھ لا شعوری ڈوڈل بھی شامل  ہیں۔



 اوپر بائیں طرف والے ڈوڈل (سرنگ نما ) کو آپ میرا پہلا باقاعدہ ڈوڈل کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت میں انٹرنیٹ پر اس آرٹ کے نام کے بارے واقف ہو چکا تھا۔

اب یہ نیچے والے ڈوڈل اصل میں مقابلے کیلئے بنائے گئے تھے۔ ان میں میں نے ایک رنگ دار پنسلوں سے، ایک سیاہ مارکر سے اور ایک کچی پنسل سے بنایا ہے۔


بس یہ دو اور تصویریں دیکھ لیں، اس کے بعد میں اجازت چاہوں گا۔۔۔۔۔
مزید آرٹ ورک کے ساتھ اگلی قسط میں حاضر ہوں گا۔ برداشت کرنے کا شکریہ۔
Read On

بڑا بول

15 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 25, 2010
آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ اس میں غلط کیا ہے اگر کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ میں اپنے زورِ بازو پر آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میں کسی کی سفارش نہیں لگواؤں گا اور خود اپنے لئے راستہ بناؤں گا۔ مجھے ان وزیروں مشیروں کی سفارشیں نہیں چاہئیں۔
غلط۔۔۔۔۔؟ نا مجھے تم یہ بتاؤ کہ اس میں صحیح کیا ہے؟؟
یہ جو تم ڈگریوں کے بل پر بول رہے ہو نا یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمارے لئے۔ ایک سیٹی بجائیں تو ہزاروں ڈگریوں والے ناک گھستے پہنچ جائیں گے۔ یہ جو تم اونچا بولتے ہو ناں۔۔۔ سب نکل جائے گا باہر۔ ہواؤں میں اڑتا ہے آجکل۔۔۔۔ کہتا ہے خود جاب ڈھونڈوں گا۔ رُلتے پھرتے ہیں تمہارے جیسے سڑکوں پہ۔۔۔
پرسوں والی بات بھول گئے کیا؟ ۔۔۔۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی جاب تھی۔۔ صرف ملتان میں کوئی پندرہ سو آدمی امتحان دینے آئے تھے۔ باقی پنجاب کے ضلعوں کا حساب آپی لگا لو۔۔۔ صرف 11 بندے رکھنے ہیں گورنمنٹ نے۔۔۔ اوران میں سے بھی کئی تو امتحان سے پہلے ہی رکھے جا چکے ہیں۔ آخر سب وزیروں شزیروں کا دل کرتا ہے کہ ان کا کزن کُزن اس پو سٹ پہ لگے۔۔۔۔۔ باقی جو ان ہزاروں میں سے دو چار رکھنے ہیں، کیا وہ تمہارے جیسے ہوں گے۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔ بات تو ایسے کرتے ہیں جیسے پتا نہیں کونسی پی ایچ ڈیاں کرتے پھرتے ہیں۔
شکر کرو کہ ہمارے تعلقات ہیں "اُچے " بندوں میں۔ وہ بھول گئے چاچے خالد کا بیٹا واپڈہ میں ہے جو، کب سے کوشش کر رہے تھے کہ لاہور ٹرانسفر ہو جائے، آخر بڑے شہروں یں "مواقع" ہوتے ہیں نا جی۔۔۔ سب چاہتے ہیں وہیں آ جائیں۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو آسان کام تھا لیکن اللہ پاک کی خصوصی مہربانی سے ایک دو دفعہ کہا اور ہو گیا۔ بس جی! جو بیٹھے بٹھائے مل جائے اس کی تو قدر ہی نہیں ہے نا انہیں۔ یہ جو چاچے رمضان کا بیٹا گیا تھا نا امتحان دینے، ہم نے دی تو ہے عرضی۔۔۔ بس جی اللہ ہی عزت رکھنے والا ہے۔
میرے بھائی تمہیں نہیں پتا یہاں سب ایسے ہی ہوتا ہے۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو ایسے ہی کرنا ہوگا جی۔ آ جاؤ گے تم بھی لائن پر۔
یہ جو تمہارا بھائی شور مچا رہا ہے نا کہ میں تمہارے وزیروں کی شفارش نہیں لگواؤں گا، میرے لئے نوکریاں بہت ہیں۔۔۔۔ یہ سب دو دن کی بات ہے۔ دیکھ لینا تمہاری نوکریاں بھی انشا اللہ ہم ہی لگوائیں گے۔ یہ جو تم لوگ وزیروں کو کوستے رہتے ہو ناں۔۔۔ تم پڑھ لکھ کر جو زیادہ " بڑا بول" سیکھ جاتے ہو نا۔۔۔ تم بھی ادھر ہی ہو اور ہم بھی ادھر ہی ہیں۔۔۔ دیکھتے ہیں خود لگتے ہو یا ہم لگواتے ہیں۔۔۔!

**بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا جج صاحب!
Read On

کھٹا میٹھا

2 تبصرہ (جات)۔ Thursday, October 15, 2009
Align Rightبہت دن ہوئے کچھ پوسٹ نہیں کر سکا۔ ۔ ۔ کچھ تصاویر ہیں پیارے پاکستان کے پیارے لوگوں کی۔ ۔ ۔


یہ پہلی تصویر ہماری قوم کی ایک ترقی پسند " سوزوکی " کی پشت پہ لکھا ایک خوبصورت فلمی ڈائلاگ ہے۔ ۔






یہ تصویر (نیچے) پٹرول کی بڑھتی ہوئی کھپت کے باعث، آمد و رفت کے ایک قدیمی ذریعہ کو پروموٹ کر رہی ہے اور اس میں خاص پات یہ بتائی گئی ہے کہ جو پیسہ آپ پٹرول سے بچائیں گے، اس کو آپ " مِس کالیں" مارنےجیسے ضروری کام میں استعمال کر سکتے ہیں!!۔



یہ تصویر پاکستان کی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں آگے بڑھنے کیلئے ایک نہائت اہم قدم کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ عام آدمی کی سہولت کیلئے اب کمپیوٹر تول کر بھی خریدے جا سکتے ہیں تا کہ آپ کو پینٹئم 4 کی قیمت میں اصلی اور خالص پینٹئم 4 ہی ملے۔۔۔۔ یہ آفر یقیناً محدود مدت کیلئے ہو گی، اور یقین جانئے یہ بہت جائز قیمت ہے۔۔۔اتنے میں تو آجکل آٹا بھی نہیں مل رہا۔ ۔۔ ۔ میں تو 15،20 کلو خریدنے کا ارادہ کر رہا ہوں ۔۔ ۔ !۔




یہ تصویر پاکستان میں فیشن کے بڑھتے ہوئے اثرات اور عام آدمی میں جدید فیشن کی دوڑ میں شامل ہونے کی لگن کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور " ہیڈ ویئر" بنانے والی انڈسٹری کیلئے بھی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
یا یہ محض ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ بندہ اس مین الٹا گر گیا ہو!۔۔۔۔




اور یہ والی تصویر پاکستانی عوام کی طرف سے تمام " طاغوتی" طاقتوں، جو کہ میلی آنکھ اٹھا کر ہماری طرف دیکھنے کی غلطی نہیں بلکہ غلطیاں کرتے ہیں، ایک واضح تنبیہہ ہے۔ ۔ ۔ارے ظالمو! تم ایک ایسی قوم سے پنگا لے رہے ہو جو " ایٹم بم سری پائے" جیسے خطرناک اور توانائی بخش " نیوکلر وار ہیڈ" روزانہ ناشتے میں ڈکار جاتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔!۔






Read On