متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

5 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, July 20, 2010
آخر کار تبدیلئ پتہ کا دن آن پہنچا۔
اب تک میں کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا۔ سہولیات تو سب ہی تھیں لیکن اپنے گھر کا شوق تو پھر ہوتا ہی ہے نا۔ دو ایک دفعہ مکان دیکھے لیکن بھیا پیسا کون لگائے۔ سوچتا تھا کہ کام دھندے سے لگ جاؤں پھر ہی یہ شوق پورا کروں گا۔ اس دوران بس دو دفعہ ہی مکان تبدیل کرنا پڑا۔ ظاہر ہے جی ’نوکر کِیہ تے نخرہ کِیہ‘ ۔۔۔۔۔ مالک مکان نے تو کیا ہی نکالنا تھا  بیچارے کا اپنا دیوالیہ نکل گیا!  اب  اس مکان میں رہتے ہوئے تو کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ اچھی سلام دعا بن گئی ہے محلے والوں سے۔  سب یاروں دوستوں کو گھر کے ایڈریس کا پتہ بھی پتا ہے۔ لیکن و ہ جو دل میں ایک خواہش سی تھی وہ باقی تھی کہ  اب کچھ دنوں پہلے ہی  ایک نئی راہ نظر آ گئی اپنی مرضی کا مکان لینے کی۔ وہ بھی بالکل مفت۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا نہ سہی پر آ تا تو ہے نا۔۔۔! بس اسی کے لیے دوڑ دھوپ کی۔  جان پہچان بالکل نہ تھی اس گلی میں۔   پہلے پلاٹ لینا پڑا، بس بکنگ کرواؤ اور کام شروع کر دو۔ دوستوں* کی مدد سے اچھا سا مکان بنا لیا۔ سب ہی بھلے لوگ ہیں، بہت مدد کی میری اس سارے کام میں۔ مکان بنائیں تو پھر نیا سامان بھی لینا پڑتا ہے۔ نیا فرنیچر، پردے شردے، ضرورت کا سبھی سامان لے لیا۔ مکان کو گھر بنا لیا ہے اب۔ ارادہ تو تھا کہ بالکل نیا اور جدید قسم کا رنگ روغن کرنا ہے لیکن فی الحال اس کیلئے مزید محنت کی ضرورت تھی۔ لہٰذا جیسے تیسے کر کے کرم فرماؤں کے تعاون سے ریڈی میڈ عمدہ سا روغن پھیر دیا ہے۔ چلو کوئی نہیں، یہ کام تو ساتھ کے ساتھ بھی ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کل ہی کرائے کے مکان سے سارا سامان اور لوازمات ’ایکس ایم ایل‘ کے ٹرک بھر بھر کے نئے گھر میں شفٹ کئے ہیں۔ سارا سامان مناسب جگہوں پہ رکھ رکھا کے اب سوچا کہ یاروں دوستوں کو تو  مطلع کر دوں کہ اب مجھے ملنا ہو تو اس پتے پہ تشریف اٹھا کے لائیں۔یہ تو پتا ہی ہوگا سب کو کہ کسی کے نئے گھر جائیں تو خالی ہاتھ نہیں جاتے۔۔۔ہے نا۔۔!
 ویسے آپس کی بات ہے ابھی مجھے نئے گھر میں اوپرا اوپرا سا لگتا ہے۔ لیکن امید ہے کہ کچھ ہی دنوں میں سیٹل ہو جاؤں گا۔ یہ پڑاؤ بھی کامیابی سے ہو گیا۔ اب اس کے بعد تو انشا اللہ اپنا ذاتی ایسا مکان بنانا ہے کہ لوگ دیکھیں تو دانتوں تلے انگلی دبائیں۔۔۔
 لو جی! بہت باتیں سنا لیں، اب ایک اطلاع نامہ تمام دوستوں اور دیگر تمام بلاگ کے وزیٹرز کے نام:
عوام الناس  اور خواص اللناس سبھی کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں بقلم خود یعنی ’عین لام میم‘ اس بلاگ سے کوچ کر کے اپنی ’  نون واؤ  ہ، چھوٹی اور بڑی ے‘ سب کو لے کر اپنی ذاتی ڈومین پر شفٹ ہو گیا ہوں۔ لہٰذا جو بھی کہنا یا کرنا ہو وہیں آ کر کیا جائے تاکہ مجھے بھی پتا چل سکے۔ تمام بلاگران سے بھی گزارش ہے کہ فدوی کے بلاگ کا پتہ اپنی اپنی بلاگ رولوں یا لسٹوں میں ٹھیک کر لیں (اور جنہوں نے ابھی تک مجھے شامل نہیں کیا تھا وہ بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں!)۔ بلاگ کا پتہ کچھ یوں ہے:


تمام دوستوں، جنہوں نے فیس بک سے لیکر تبصروں تک،  کسی بھی انداز میں تعاون کیا، میں ان کا تہہِ دل سے مشکور ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
Read On

اپنی ڈومین؛ ایک خواب

14 تبصرہ (جات)۔ Thursday, July 15, 2010
حالات بڑے ناسازگار ہیں۔ بلاگستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف مذمتوں اور صفائیوں کا دور چلا ہوا ہے۔ ہم تو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ پہلے بھی سادہ بلاگر تھے، اب بھی سادہ بلاگر ہیں۔ شروع شروع میں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ کس نے کس کیلئے کیا لکھا ہے کیونکہ میں سب بلاگز نہیں پڑھ پاتا۔  کئی دفعہ اس طرح کی بلاگ پوسٹوں کی مذمت بھی کی ہے، اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہاں! یہ ضرور کر سکتے تھے کہ اس میں حصہ دار نہ بنیں تو یہ بخوبی کیا ہے۔ سادہ سادہ سی پوسٹیں چھاپ دیتے ہیں۔ جو پڑھے اس کا بھی بھلا، جو نہ پڑھے اس کا بھی بھلا۔  شازل نے دو ایک دفعہ کچھ مشکوک فہرستوں کا ذکر کیا ہے جن میں بلاگستان کے ’ٹاپ 10‘ افراد کے نام موجود ہیں۔ جو ایک دوسرے کے بلاگوں پہ تبصرے کر کُر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ لسٹیں ابھی منظرِ عام پہ نہیں آئیں اور فی الحال بلاگستان کی صورت حال دیکھتے ہوئے آئیں گی بھی نہیں۔ ہمیں بھی انتظار ہے کہ دیکھیں ہم بھی اس بلند مقام پہ ہیں یا نہیں۔۔۔ :((
خیر یہ تو تھی بائی دا وے بات، اصل بات یہ ہے کہ  میں نے کل ساری رات جاگ کے جناب محترمی و مکرمی محمد اسد صاحب، بلا عنوان والے، کے لکھے گئے نہایت سادہ اور بہترین ٹیوٹوریل سے .co.cc پہ ایک عدد سائٹ بنائی اور پھر byethost پر ہوسٹنگ بھی قائم کر لی۔ مجھے ان تمام چیزوں کے بارے میں ذرہ برابر بھی نہیں پتا تھا اور میں عرصہ ہائے دراز سے یہی سمجھتا تھا کہ اپنی ڈومین پر جانے کیلئے تو بھائی جیب میں پیسا ہونا چاہیئے۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، اگر آپ اپنی ڈومین پہ جانا چاہتے ہیں تو کئی ایک ایسی سائٹس ہیں جو مفت سہولت فراہم کرتی ہیں۔ میں نے جب کوئی ایسی سائٹ دیکھی جو مفت یہ سہولت دیتی تھی تو مجھے یہی لگتا تھا کہ یہ بعد میں آپ سے پیسے مانگ لیں گے اور آپ کا بلاگ یا سائٹ بند کر دیں گے۔ لہٰذا جو ہے اسی پہ گزارا کرو۔ مجھے بلاگر سے کوئی شکائت تو نہیں ہے، بس میں چاہتا ہوں کہ اپنی ڈومین کا مزا بھی چکھ لینا چاہیئے۔ اسی لئے کل خود کلامی کرنے والے عثمان نے جب یہ بتایا کہ وہ اپنی ڈومین پہ سمیت اپنے بلاگ کے شفٹ ہو گئے ہیں اور تبدیلی کا نشان بن گئے ہیں تو مجھے بھی یہی شوق چرایا۔ میں نے محض معلومات کیلئے ان کے بتائے لنکات کی سیر کی تو بلا عنوان کے ذریعے یہ کام انجام پایا۔ ابھی تو شروعات ہے، میں اس سلسلے میں محمد اسد صاحب سے مزید معلومات اور تعاون کا یقین رکھتا ہوں۔ اس سلسلے کے دیگر اشتراک میں شامل ہیں
م بلال م، قطرہ قطرہ سمندر والے
جہانزیب بھائی، اردو جہاں والے
نبیل حسن نقوی، اردو ویب والے
اور بھی کوئی ہے تو مجھے ضرور بتائے تاکہ میرا کام آسان ہو۔ کریڈٹ دینے کی پوری ذمہ داری لی جاتی ہے۔ :)

>>ایک سوال: محمد اسد سے میں نے رابطہ کیا ہے، وہ یقیناً بتا دیں گے۔ لیکن اگر آپ کو پتا ہے تو ضرور بتائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی بلاگر کی تمام پوسٹیں سمیت لوازمات کے اپنی ڈومین پہ شفٹ کر سکتا ہوں۔ کیونکہ وہاں تو ورڈ پریس استعمال ہوتا ہے۔؟؟ پلیز ناں مت کرنا!!
Read On

بابا پال سائیں

10 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, July 13, 2010

فیفا ورلڈ کپ میں بابا پال سائیں کی ’آٹھوں خانے چت‘ کرنے والی کامیاب پیشن گوئیوں کے بعد جہاں انہیں مختلف ’دہشت گرد‘ طبقوں کی طرف سے بھون کے کھانے اور زندہ سوشی بنا دینے کی دھمکیاں دی گئی ہیں ، وہیں پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافے کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک پسماندہ اور غریب ملک ہے، اس لئے یہاں ابھی تک مستقبل کا حال جاننے کے پرانے طریقے ہی رائج ہیں۔ جن میں سب سے مشہور  طوطے کے ذریعے فال نکالنا ہے۔ طوطا پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ زبانی و لسانی اعتبار سے بھی لازم و ملزوم  ہے۔ طوطا چشمی کے اس دور میں جہاں  طوطی کی گونجتی آواز کو نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا وہاں بابا پال سائیں جرمنی والے کے اس نئے انداز کو سراہا گیا ہے جس میں کامیاب فریق کے گرد اپنے قانون کی طرح لمبے ہاتھوں یا پیروں کو لپیٹ کر گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

جرمنی کی ہسپانیہ کے ہاتھوں سیمی فائینل کی شکست اور پھر ہسپانیہ کی فائینل میں کامیابی کے بعد تو  آکٹوپس (ہشت پا) بابا پال سائیں کے خلاف بڑھتے ہوئے شدت پسندوں کی وجہ سے اسپین کے وزیر اعظم نے بال سائیں کو اسپین میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ابھی تک بابا پال سائیں کے مرشد نے  آکٹوپس کو بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ نہیں سنایا۔ میری حکومتِ پاکستان سے اپیل ہے کہ اس نادر دیو مالائی مخلوق کو پاکستان میں بلا لیا جائے تا کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کی قسمت جانی جا سکے۔ اور شادیوں، طلاقوں، محبوبوں اور دشمنوں کو قابو کرنے کے جتنے بھی پینڈنگPending مقدمے ہیں، ان کا خاطر خواہ حل نکالا جا سکے۔ویسے بھی اس سے پہلے تک پاکستان میں یہ نایاب جاندار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اور فٹ پاتھوں پر تو خاص طور پہ اس کا کوئی ہم جنس نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب پاکستان میں بھی اس ہشت پائی نسل کو آگے بڑھایا جانا چاہیئے اور اس سے شادیوں، طلاقوں، کاروبار میں کامیابی و ناکامیابیوں سمیت ہر طرح کے کام لئے جانے چاہئیں۔ محبوب کو پکڑ  بلکہ جکڑ کر بنفسِ نفیس قدموں میں گرانے میں تو خاص ٹریننگ  بھی دیئے جانے کے روشن  امکانات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ویسے بھی ’پائی‘ سے متعلقہ الفاظ کو پسند کیا جاتا ہے مثلاً چار پائی، ہاتھا پائی اور پائی پائی۔ لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ اردو زبان میں ہشت پا کو بھی خوشدلی سے شامل کیا جائے گا۔ اور اس سے مل ملا کر ہشت پائی الفاظ کو بھی جگہ دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ہشت پاؤوں کی نسل بھی سامنے آئے گی۔ جن میں بنگالی ہشت پا، ہشت پا کالیا اور  ڈبل شاہی ہشت پا زیادہ نمایاں ہوں گے۔ایم اے، بی اے، سی اے، کی اے! والے ہشت پا تو عام  ملنے لگیں گے۔ سنا ہے کہ آکٹوپس کی عمر تین سال ہی ہوتی ہے اور یہ بابا پال سائیں اپنی پرائم ایج  گزار چکے ہیں اور تقریباً ڈھائی سال کے ہیں۔ اس ضعیف العمری میں تو ان کیلئے پاکستان ایک جنت سے کم نہیں کہ یہاں زندہ آکٹوپس لاکھ تو مرا آکٹوپس سوا لاکھ کے مصداق بابا پال سائیں کا مزار بنانے کی بھی گنجائش ہے۔ نو گزی قبریں تو پاکستان میں پائی ہی جاتی ہیں ، اب ایک آٹھ گزی بھی ہو جائے۔ جہاں ملنگ آٹھ پہرہ روزہ رکھیں گے اور آٹھ آنے کا چڑھاوا دیا جائے گا۔۔۔!!
پال کی جتنی آمدنی جرمنی میں ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان میں متوقع ہے، یہاں تو اس کی آٹھوں ٹانگیں گھی میں ہوں گی۔۔!!
Read On

ڈُوڈل آرٹ Doodle-Art

18 تبصرہ (جات)۔ Friday, July 9, 2010
بچپن سے مجھے یہ عادت رہی کہ جب مین کچھ سن رہا ہوں، خاص طور پر کمرہ جماعت  میں(یا لیکچر ہال میں)  تو میرے ہاتھ چلتے رہتے ہیں۔ سامنے کتاب ہو، کاپی ہو یا پھر ڈیسک تو ہوتا ہی ہے تو جو بھی قلم یا پین ہاتھ میں ہے ، وہ بس آگے پیچھے، دائیں بائیں چلتا ہی رہے گا۔ لکیریں، پھول بوٹے، دائرے، دستخط، نام یا لیکچر میں سے کوئی ایک خاص لفظ بار بار مختلف انداز میں، بس کچھ نہ کچھ تخلیقی مراحل میں رہتا ہی ہے ۔  اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہوتا تھا کہ میں سن نہیں رہا ہوتا، بس یہ عادت سی بن گئی ہے۔ سکول کے علاوہ کیونکہ سکول کی کاپیوں یا کتابوں پہ تو کچھ بھی ’آف دا ریکارڈ‘ لکھو یا بناؤ تو  شامت ہوتی تھی۔ کالج اور پھر یونیورسٹی میں اساتذہ کی یہ ’اجارہ داری‘ ہماری کتابوں ، کاپیوں یا رجسٹروں پہ نہیں رہتی سو ہر ایک لکھنے کے قابل صفحے پر میں کچھ نہ کچھ حصہ اس گلکاری کیلئے ضرور خود بخود ہی مختص کر دیتا ہوں (پہلا صفحہ ، اور ہر صفحے کا اوپری حاشیہ تو میرا ہوتا ہی ہے!)۔ کئی دفعہ اس عادت سے تنگ آکر اور بعض اوقات ضروری پوائینٹس ان گلکاریوں میں گنوا دینے کی باعث میں نے اس عادت کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ اور  صفحات کو انتہائی صاف رکھنے کی مہم چلائی۔ سنتے سنتے اچانک یاد آیا کہ اوہو! تاریخ تو لکھنا ہی بھول گیا آج کی۔ سو سر کی بات سنتے اور سر دھنتے ہوئے ہاتھ غیر محسوس انداز میں چلنا شروع ہوا۔۔۔ یہ کیا میں تو تاریخ لکھ رہا تھا اور یہ میں نے ’جولائی‘ کو ڈریگن کیسے بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔! یہ ’2010‘ کی آنکھیں اور ناک۔۔۔۔۔۔۔ اف توبہ! میں نہیں رہ سکتا بے معنی لکیروں کو شکل دئیے بغیر!! بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں، جیسے کہ ڈاکٹر حضرات (جی ہاں، وہی نفسیاتی) اسے ذہنی کشمکش اور ذہن پہ کسی بوجھ یا فرار کی راہ قرار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ درست بھی ہو۔ بورنگ لیکچر سے کون فرار نہیں چاہتا!
وجہ جو کوئی بھی ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپنی ساری زندگی اس خود ساختہ ’ آرٹ کی خدمت‘ کرنے کے بعد کچھ ماہ پہلے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ جو میں "کچ مچوڑے" ڈالتا رہتا ہوں یہ تو  ایک نئی اور جدید آرٹ کی قسم ہے جسے انگریزی میں ’ڈوڈل‘ یا Doodle Art کہتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ در حقیقت کچھ بھی بنانے کا نام ہے۔ جی ہاں کچھ بھی! ایسی تخلیقات جو آپ اپنے تخیل کو استعمال کرتے ہوئے بناتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے ان کا کوئی ظاہری تھیم  نہ  ہو یا بس وہ صرف ایک صفحہ بھرنے کی مشق ہو یا خالی خولی دائروں میں ہی کوئی نقطہ ڈھونڈ کر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے۔۔۔۔۔۔۔ ہوں۔ یعنی کہ اصل میں یہ کوئی آرٹ نہیں ہے ، بس یہی اس کا آرٹ ہے۔
ڈوڈل آرٹ کے بارے میں آپ یہاں، یہاں اور یہاں سے مزید جان سکتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ کی اصل بات یہ ہے کہ ہر کوئی’ ڈوڈلتا‘ ہے اور ہر کوئی ڈوڈل بنا  سکتا ہے۔ّ

میں کچھ عرصہ پہلے اپنی  یونیورسٹی کی طرف سے یو ای ٹی لاہور میں ہونے والے ڈوڈل مقابلے میں شامل ہوا تھا۔ اسی مقابلے کی بدولت مجھ پر اپنی اس ’صلاحیت‘ اور’ بیش بہا آرٹ ‘کا حادثاتی طور پر ادراک ہوا تھا۔
تو پھر لیجئے حاضر ہیں میری کچھ ذاتی ڈوڈلیاں۔۔۔
سب سے پہلے کچھ ’پری ڈوڈل‘(pre-Doodle)۔۔۔۔ جو اصل میں اس سب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔


 میرے اصل "کچ مچوڑے" ردی کی صورت میں گھر پڑی کتابوں کاپیوں میں ہیں، اور کالج کے زمانے کے صفحوں پر تو میں نے وہ تباہی پھیری ہوئی ہے’ آرٹ‘ کی کہ بس۔۔۔ ایف ایس سی کی  اردو کی کتاب میں تو میں نے اپنی لیکچر دیتی ہوئی قابل صد احترام استانی صاحبہ کا پورٹریٹ بھی بنایا ہوا ہے۔ امتحانوں میں تو فنونِ لطیفہ و غیر لطیفہ میرے سر پہ سوار ہوتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے ہی کئی ڈوڈل میری قلم کی گود سے جنم لیتے رہتے ہیں۔(ایک الگ پوسٹ میں نمائش کیلئے ضرور شائع کروں گا!)
یہ جو نیچے والے دوڈل ہیں یہ اصل میں ڈوڈل سمجھ کر ہی بنائے گئے ہیں اور زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ یہ سب مقابلے سے پہلے کے ہیں۔ کچھ لا شعوری ڈوڈل بھی شامل  ہیں۔



 اوپر بائیں طرف والے ڈوڈل (سرنگ نما ) کو آپ میرا پہلا باقاعدہ ڈوڈل کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت میں انٹرنیٹ پر اس آرٹ کے نام کے بارے واقف ہو چکا تھا۔

اب یہ نیچے والے ڈوڈل اصل میں مقابلے کیلئے بنائے گئے تھے۔ ان میں میں نے ایک رنگ دار پنسلوں سے، ایک سیاہ مارکر سے اور ایک کچی پنسل سے بنایا ہے۔


بس یہ دو اور تصویریں دیکھ لیں، اس کے بعد میں اجازت چاہوں گا۔۔۔۔۔
مزید آرٹ ورک کے ساتھ اگلی قسط میں حاضر ہوں گا۔ برداشت کرنے کا شکریہ۔
Read On

کارٹون کہانی

9 تبصرہ (جات)۔ Thursday, July 8, 2010
جب ہم چھوٹے تھے تو پی ٹی وی کا زمانہ ہوا کرتا تھا جس پہ سہہ پہر تین بجے نشریات کا اغاز کیا جاتا تھا اور قاری سید صداقت علی کے ’اقرا ‘ کے بعد کارٹون لگا کرتے تھے۔  ہماری واحد تفریح وہی کارٹون ہوا کرتے تھے۔ یا پھر صبح صبح سات بجے والے مختصر کارٹون ہوا کرتے تھے لیکن وہ ہم عام طور پر نہیں دیکھ پاتے تھے کیونکہ ہمارا اسکول ذرا دور تھا اور ہمیں سکول بس لینے آ جاتی تھی۔ "کیپٹن پلا نِٹ" (اس وقت Planet کو پلانِٹ ہی یاد کیا ہوا تھا)، وولٹران، ہِی میں  اور کونین ہی ہمارے خوابوں کی دنیا میں بستے تھے۔ میرے پسندیدہ کیپٹن پلانٹ تھے۔ یہی تین چار کارٹون اور ان کی وہی تین چار اقساط بار بار دیکھ دیکھ کر یاد بھی ہو گئی تھیں۔ وقت نے انگڑائی لی اور  چھتوں پہ لگے  اَنٹینے بدلنے لگے۔ یو ایچ ایف اور وی ایچ ایف کا کوئی الٹ پھیر چلنے لگا جو کہ اس وقت بھی میری سمجھ سے باہر تھا اور اب بھی۔ این ٹی ایم، شالیمار نیٹ ورک وغیرہ تشریف لانے لگے اور پھر بعد میں پی ٹی وی ورلڈ آنے لگا۔ اس وقت تک کارٹونوں نے واحد اردو سیریز ’ٹریژر آئیلینڈ‘ تک ترقی کر لی تھی۔ جس کو دکھا دکھا کر وہ بھی بچوں کو زبانی یاد کروا دی گئی تھی۔  ہمارے ہمسائے میں جو گھر تھا انہوں نے اس زمانے میں ڈش اینٹینا لگوایا ہوا تھا اور وہاں سونی ٹی وی اور زی ٹی وی آیا کرتے تھے۔ سونی پر کارٹونوں کا خصوصی  انتظام تھا اور وہ ہندی (یعنی اردو میں!)میں لگتے تھے۔ ہمین بھی کبھی کبھی موقع مل جایا کرتا تھا دیکھنے کا۔ وہاں ڈزنی کے کارٹونوں سے شناسائی ہوئی۔ الہ دین، لٹل مرمیڈ، گوفی اور دیگر سے تعارف ہوا۔  یہ بھی اچھے لگنے لگے۔ اردو میں کارٹونوں کا اپنا مزہ تھا۔ مجھے گھوسٹ بسٹرز بہت پسند تھے۔ لیجئے جناب! اچانک ہی کیبل کا زمانہ آگیا۔ ٹانواں ٹانواں کیبل لگنے لگی، میرا بھائی کبھی کبھی چھت سے گزرتی کیبل پر  ’کنڈی‘ لگا کر  مستفید کر دیا کرتا تھا۔  پھر محلے کے گھروں میں کیبل لگنا شروع ہوئی تو ہمارے ہاں بھی آ گئی۔ اس زمانے میں میں کالج میں تھا شاید، لہٰذا  دیکھنے کا شوق ختم ہو چکا تھا۔ طویل عرصہ ان کارٹونوں کی دنیا سے دور ہی گزرا۔ بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور پھر بھتیجوں کی آمد ہوئی۔ بس پھر کیا تھا، ایک ایسا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ ہمارے گھر میں ایک ٹی وی جو کہ بھائی کے کمرے میں ہے اس پر صرف ایک ہی چینل لگتا تھا اور وہ تھا کارٹون نیٹ ورک۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کو، بلا تخصیص جنس و عمر کارٹون ہی دیکھنے پڑتے ہیں۔ میں جب بھی بیٹھ جاتا تو پھر سب کے سونے کے بعد ہی اٹھتا۔ مجھے پھر سے کارٹونوں کی دنیا مل گئی تھی اور اس دفعہ یہ دنیا چار قسطوں پہ مشتمل نہیں تھی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کارٹون موجود تھے۔  ایک سے ایک نرالا، ایک سے ایک رنگین۔ ایسے کارٹون بھی تھے جو صرف شرارتی تھے، ایسے بھی تھے جو صرف پڑھاکو تھے۔ زنانہ کارٹون بھی وافر تعداد میں موجود تھے۔
پہلے بچے جو کارٹون بھی ملتا تھا اس کو پسند کر لیتے تھے۔ انتخاب آسان تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا،  بچے ہزاروں میں سے کسی ایک دو کو ہی پسند کرتے یں، نت نئے کارٹون چینلز کی بدولت بچے بھی بالکل بڑوں کی طرح  ایک سے دوسرے پہ منتقل ہوتے ہیں۔ تھوڑا اسا دیکھا، اچھا لگا تو ٹھیک ورنہ بدل ڈالو!
بھلا ہو ہمارے پڑوسی ملک کا اب تو ہندی یعنی اردو میں بھی کئی کارٹون چینل ہیں۔ وقت کی ضرورت تھی، انہوں نے اپنا لی اور چونکہ یہاں بھی وقت کی ضرورت تھی لہٰذا ہم نے چرُا لی( یا ادھار لے لی)۔ بچے ان کارٹونوں کی زبان بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ میرا ایک بھتیجا کثرتِ کارٹون بینی کے باعث خود بھی ایک کارٹون بن گیا ہے۔ بڑے ایکشن مارتا ہے، بڑے ڈائلاگ رٹتا ہے۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی، اسے یہ بھی پتا ہے کہ ہم اس وقت 21ویں صدی میں ہیں اور جو  ڈوریمان روبوٹ ہے وہ 22ویں صدی سے آیا ہے۔ اسے یہ بھی پتا ہے کہ یہ کارٹون ہیں اور حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ یہی خواہش رکھتا ہے کہ 22ویں صدی میں  ایسا ہو جائے!
اب چونکہ اینی میٹڈ فلموں کا زمانہ ہے اور میں  اینی میٹڈ فلمیں بہت شوق سے دیکھتا ہوں، اور میرے گھر میں سبھی اینی میٹڈ فلموں کا تھوڑا بہت ششوق رکھتے ہیں ،اس کی وجہ میرے بھتیجوں کی زبر دستی کی کارٹون نشریات ہے جو گھر میں چلتی رہتی ہے۔ اسی لئے فلمستان پر بھی ایک اینی میٹڈ فلم "ٹوائے سٹوری 3" پر تجزیہ لکھا ہے۔ اس کے پہلے دونوں پارٹ میں اپنے بھتیجوں کے ساتھ پچھلے ہفتے ہی دیکھ چکا ہوں۔ تیسرا پارٹ بھی ڈاؤنلوڈ کیا اور نا چاہتے ہوئے بھی کیم پرنٹ میں دیکھ لیا۔ :(۔
تجزیہ پڑھنے کیلئے فلمستان پر جائیں۔
Read On

نئی تھیم؛ سادگی اور پُرکاری

8 تبصرہ (جات)۔ Saturday, July 3, 2010
لیجئے جناب! پورے دن کی محنت کے بعد آج میں نے اپنے بلاگ کو نئے اور سادہ سے ٹیمپلیٹ میں ’بے رنگ‘ دیا ہے۔
میرے بلاگ کی گذشتہ تھیم بھی رنگوں سے عاری تو تھی لیکن اس میں کافی ’ششکے‘  وغیرہ تھے، اس لئے وہ بعض اوقات لوڈ ہونے میں وقت لیتی تھی۔ ویسے اس دیری میں زیادہ ہاتھ میرے ہاسٹل کے انٹرنیٹ کنکشن کی رینگتی ہوئی رفتار کا ہے، جو کہ کثرتِ ڈاؤنلوڈنگ اور  تقریباً سات آٹھ کمپیوٹروں پر چلتی ہما وقت ’ٹورنٹات‘ کے باعث کچھوے کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔
"ہمیشہ" کی طرح یہ نئی تھیم بھی میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے، یعنی کہ بنے بنائے ریڈی میڈ ٹیمپلیٹ کو اردو کیا ہے۔ اور اس کو اپنے بلاگ کے مطابق ڈھال دیا ہے۔ کافی عرصے سے میری یہی کوشش تھی کہ کوئی بالکل سادہ سی صاف ستھری تھیم اپنا لوں۔۔۔۔بلاگ کیلئے!
اس ٹیمپلیٹ میں میں نے تبصروں کیلئے  اردو ایڈیٹر بھی چپکا دیا ہے اور خوشی کی بات یہ کہ وہ صد فیصد کام بھی کر رہا ہے۔ اس بلاگ کی خاص یا پھر عام بات یہ ہے کہ اس میں ڈبے ہی ڈبے ہیں۔۔۔اسی لئے اس کا نام "سادہ ڈبہ ٹیمپلیٹ" ہے۔ آج یا کل میں یہ تھیم اپلوڈ کر کے فلاحِ عامہ کیلئے پیش کر دوں گا۔ اور ربط بھی یہاں پوسٹ کر دوں گا۔ اس کے علاوہ اردو محفل میں بھی لگا دوں گا۔ بے فکر رہئے!
ویسے مجھے تو یہ تھیم فی الحال پسند ہے، آپ لوگوں سے بھی فیڈ بیک کی درخواست ہے، اور اگر کسی کو اس میں کائی "کیڑا" یا بگ نظر آئے تو برائے مہربانی اس کو نکالنے کے ساتھ ساتھ کوئی "کیڑا مار" نسخہ بھی بتانا مت بھولئے گا۔۔۔!!۔
Read On