متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

دو مزید بلاگسپاٹ ٹیمپلیٹس

8 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, June 29, 2010
آج پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، دو مزید نئی نکور بلاگسپاٹ اردو ٹیمپلیٹس کے ساتھ۔  امید ہے یہ بھی پسند آئیں گی۔

1۔ ونٹیج پیپر اردو (VintagePaper-Urdu)

ڈاؤنلوڈ روابط:
اردو ویب سے ڈاؤنلوڈ کریں
متبادل ربط

2۔ کافی ڈیسک۔ اردو (Coffee-Desk-Urdu)
یہ ٹیمپلیٹ پاکستانی کی فرمائش پر اردو کی ہے۔ امید ہے انہیں اور باقی سبکو پسند آئے گی۔ مجھے تو بہت اچھی لگی ہے۔



ڈاؤنلوڈ روابط:
اردو ویب سے اتاریں۔
متبادل لنک

مزے کریں!!۔
Read On

بلاگسپاٹ کے دو نئے نکور اردو ٹیمپلیٹس

19 تبصرہ (جات)۔ Monday, June 28, 2010
لو جی محترم، بھائی جان، قدر دان، میزبان، آلو والا نان، پاندان وغیرہ وغیرہ!
آج میں اپنے تمام اردو بلاگر ساتھیوں کیلئے انتہائی حقیر، پر تخسیر، دلگیر۔ راہگیر، گاجر کی کھیر جیسا تحفہ لیکر آیا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ پسند آئے گا۔ لمبی چوڑی بات کرکے آپ کا اور اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گا۔ :)
اردو بلاگستان کی بڑھتی ہوئی رونقوں کو دیکھتے ہوئے میں نے دو انگریزی تھیموں کو اردو میں کیا ہے۔ یہ تھیمیں بلاگر ڈاٹ کام یا بلاگسپاٹ ڈاٹ کام کیلئے ہیں۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ میں نے کوشش کرکے بنائی ہیں، اور چونکہ میں کوئی پروگرامر نہیں ہوں اور نہ ہی ان ایچ ٹی ایم ایل یا ایکس ایم ایل وغیرہ سے کوئی تعلق رکھتا ہوں، اس لئے جو مل جائے صبر شکر کریں۔ اس تمام کاوش میں جہانزیب(اردو جہان والے) صاحب کا تشکیل کردہ اردو کتابچہ کام آیا۔ جو اتنا آسان اور عمدہ ہے کہ میں نے بھی سمجھ لیا۔ اس میں اردو تبصرہ وغیرہ کرنے کیلئے اردو ایڈیٹر موجود نہیں ہے، جو کہ یہاں (اردو محفل) سے دیکھا جا سکتا ہے۔ نبیل بھائی نے کئی ایک ٹیمپلیٹس مہیا کئے ہوئے ہیں ان کا ربط یہ رہا۔ اگر مجھے وقت ملا اور دل بھی کر گیا تو میں بھی ہمت کرکے ان تھیمز میں لگانے کی کوشش کروں گا۔

پہلی  تھیم کا نام ہے موزائکو (Mosaico).


تصویر میں یہ اتنی اچھی نہیں لگ رہی، ویسے زیادہ اچھی ہے۔ :)
یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

دوسری تھیم کا نام ہے آؤٹونو (Outono), یا آپ کچھ اور بھی پکار سکتے ہیں۔
اس کی سکرین شاٹ یہ رہی:

اس تھیم میں ایک چھوٹی سی غلطی رہ گئی ہے (میری دانست میں) ۔ وہ میں جلد  ٹھیک کرکے دوبارہ اپڈیٹ کر دوں گا۔
یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

انشا اللہ میں مزید تھیمز یا ٹیمپلیٹس کو اردو بھی ضرور کروں گا۔ لہو لگا کر شہیدوں میں نام کرنے کیلئے۔ :))۔
کسی بھی قسم کی پوچھ تاچھ کیلئے میں حاضر ہوں۔  اگر کوئی بلاگر کسی تھیم کی اردو فرمائش کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں ہے۔ اینٹرٹین کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ت میں ہی کروں گا۔  :پ
شکریہ
Read On

ڈائری سے انتخاب -1

9 تبصرہ (جات)۔ Saturday, June 26, 2010
وقت ایک ایسا درخت ہے جس کی ہر شاخ پر نئے رنگ کا پھول کھلتا ہے اور جسکے ہر پھل کا ذائقہ دوسرے سے جدا ہے۔اس کا اندازہ مختلف ادراو میں لکھی گئی مختلف ڈائریوں کو پڑھ کر ہوتا ہے، اور بندہ سوچتا ہے کہ کیا یہ اس کی ہی سوچ تھی۔۔۔!
پہلی ڈائری میں 2001ع میں لکھے گئے اشعار سے انتخاب:
آغاز میں علامہ اقبالؒ کے نعتیہ اشعار۔۔۔۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طہٰ
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شروع میں میرا شاعری پڑھنے کا واحد ذریعہ گھر میں آنے والے ڈائجسٹ اور رسالے ہوا کرتے تھے۔
پتا نہیں کونسے رسالے سے لکھے تھے یہ والے انقلابی اشعار:
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
مانا کہ اس جہاں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار تو کم کر گئے گزرے جہاں سے ہم
ساحر لدھیانوی
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے، بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
بیدل حیدری
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
تسلیم کے رات اندھیری ہے
آلام کی گھمن گھیری ہے
تیرا تن زخموں سے چور بہت
تیرا دل غم سے رنجور بہت
میرا تن ، من، دھن تجھ پر قربان
اے کعبہ دل، اے معبدِ جان
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جس دھول کی مٹی سے ہوا قافلہ اندھا
خود قافلہ سالار کی ٹھوکر سے اُڑی ہے
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میں چھوڑ سکتا نہیں ساتھ استقامت کا
میری اذان سے جوشِ بلال مت چھینو
ابھی کتاب نہ چھینو تم ان ہاتھوں سے
ہمارے بچوں کا حسن و جمال مت چھینو
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اور میری بہت پسندیدہ نظم ، غالباً ابنِ انشا کی ہے:
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ہر اک شے پہ مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلا لگا ہے اسی شان سے
جو چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
جو چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا جی میں اب دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
چند مزید اشعار:
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے یاتھ بھیگ کر سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر کے بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
نا معلوم
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
حیرت سے دیکھیں قبر کے تازہ اسیر کو
سارے سوال بھولے ہیں منکر نکیر کو
اپنی ہی خواہشات کا کرنے لگا طواف
کس کی نظر لگی ہے بشر کے خمیر کو
جان کاشمییری
:::::::::::::::::::::::::::::::::::
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم پر بھی انسان
بہت خوشی میں بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم
امجد اسلام امجد
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اور آخر میں طارق عزیز شو میں بیت بازی کے دوران نوٹ کیے ہوئے دو اشعار:
نظر اٹھا کر کھلا آسمان دیکھتے ہیں
جو لوگ اڑ نہیں سکتے اڑان دیکھتے ہیں
:::::::::::::::::
کبھی رحمت تڑپتی ہے کہ کوئی آسرا مانگے
کبھی بے آسرا ہو کر دعائیں لوٹ آتی ہیں
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: (باقی آئیندہ)
Read On

بڑا بول

15 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 25, 2010
آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ اس میں غلط کیا ہے اگر کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ میں اپنے زورِ بازو پر آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میں کسی کی سفارش نہیں لگواؤں گا اور خود اپنے لئے راستہ بناؤں گا۔ مجھے ان وزیروں مشیروں کی سفارشیں نہیں چاہئیں۔
غلط۔۔۔۔۔؟ نا مجھے تم یہ بتاؤ کہ اس میں صحیح کیا ہے؟؟
یہ جو تم ڈگریوں کے بل پر بول رہے ہو نا یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمارے لئے۔ ایک سیٹی بجائیں تو ہزاروں ڈگریوں والے ناک گھستے پہنچ جائیں گے۔ یہ جو تم اونچا بولتے ہو ناں۔۔۔ سب نکل جائے گا باہر۔ ہواؤں میں اڑتا ہے آجکل۔۔۔۔ کہتا ہے خود جاب ڈھونڈوں گا۔ رُلتے پھرتے ہیں تمہارے جیسے سڑکوں پہ۔۔۔
پرسوں والی بات بھول گئے کیا؟ ۔۔۔۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی جاب تھی۔۔ صرف ملتان میں کوئی پندرہ سو آدمی امتحان دینے آئے تھے۔ باقی پنجاب کے ضلعوں کا حساب آپی لگا لو۔۔۔ صرف 11 بندے رکھنے ہیں گورنمنٹ نے۔۔۔ اوران میں سے بھی کئی تو امتحان سے پہلے ہی رکھے جا چکے ہیں۔ آخر سب وزیروں شزیروں کا دل کرتا ہے کہ ان کا کزن کُزن اس پو سٹ پہ لگے۔۔۔۔۔ باقی جو ان ہزاروں میں سے دو چار رکھنے ہیں، کیا وہ تمہارے جیسے ہوں گے۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔ بات تو ایسے کرتے ہیں جیسے پتا نہیں کونسی پی ایچ ڈیاں کرتے پھرتے ہیں۔
شکر کرو کہ ہمارے تعلقات ہیں "اُچے " بندوں میں۔ وہ بھول گئے چاچے خالد کا بیٹا واپڈہ میں ہے جو، کب سے کوشش کر رہے تھے کہ لاہور ٹرانسفر ہو جائے، آخر بڑے شہروں یں "مواقع" ہوتے ہیں نا جی۔۔۔ سب چاہتے ہیں وہیں آ جائیں۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو آسان کام تھا لیکن اللہ پاک کی خصوصی مہربانی سے ایک دو دفعہ کہا اور ہو گیا۔ بس جی! جو بیٹھے بٹھائے مل جائے اس کی تو قدر ہی نہیں ہے نا انہیں۔ یہ جو چاچے رمضان کا بیٹا گیا تھا نا امتحان دینے، ہم نے دی تو ہے عرضی۔۔۔ بس جی اللہ ہی عزت رکھنے والا ہے۔
میرے بھائی تمہیں نہیں پتا یہاں سب ایسے ہی ہوتا ہے۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو ایسے ہی کرنا ہوگا جی۔ آ جاؤ گے تم بھی لائن پر۔
یہ جو تمہارا بھائی شور مچا رہا ہے نا کہ میں تمہارے وزیروں کی شفارش نہیں لگواؤں گا، میرے لئے نوکریاں بہت ہیں۔۔۔۔ یہ سب دو دن کی بات ہے۔ دیکھ لینا تمہاری نوکریاں بھی انشا اللہ ہم ہی لگوائیں گے۔ یہ جو تم لوگ وزیروں کو کوستے رہتے ہو ناں۔۔۔ تم پڑھ لکھ کر جو زیادہ " بڑا بول" سیکھ جاتے ہو نا۔۔۔ تم بھی ادھر ہی ہو اور ہم بھی ادھر ہی ہیں۔۔۔ دیکھتے ہیں خود لگتے ہو یا ہم لگواتے ہیں۔۔۔!

**بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا جج صاحب!
Read On

ڈائری لکھنا

7 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, June 16, 2010
 ڈائری لکھنے کا شوق تو مجھے صرف اس لئے پیدا ہوا تھا کہ بچپن میں  کئی کہانیوں میں  پڑھا تھا کہ ہیرو کو کہیں کسی خفیہ خانے یا دراز میں سے ایک عدد پاگل سائنسدان یا بوڑھے جادوگر یا اسی طرح کے کسی کردار کی ایک خفیہ ڈائری مل جاتی تھی اور اس میں نلکا ٹھیک کرنے سے لے کر آبِ حیات پانے تک سب کا راز  لکھا ہوتا تھا۔ سوچتا تھا کہ شاید اگر آپ ڈائری خرید لیں تو خود بخود ہی "راز کی باتیں" آپ پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور آپ بھی کوئی کیمیا گری کی کتابِ  لکھ ڈالتے گے۔ لہٰذا سب سے پہلی کنواری ڈائری جو میں نے پہلے صفحے پر  باقاعدہ اپنا نام لکھ کر شروع کی وہ بڑے بھائی کی خفیہ الماری سے چوری کی تھی۔ میرے بھائی کو کسی نے شاید تحفے میں دی تھی اور مجھے وہ بہت پسند تھی کیونکہ اس کے ورق روغنی تھے اور ان پر  زیریں حاشیوں میں کارٹون نما کیڑے مکوڑے بھی بنے ہوئے تھے (کراٹین(یہ میں نے ابھی ابھی کارٹون کی جمع نکالی ہے) مجھے اب بھی پسند ہیں) اور سب سے بڑھ کر اس میں  ایک عدد چھوٹی سی "تالی" بھی لگتی تھی جو کہ "پرائویسی" کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔  میرے بھائی کو اس ڈائری کے بارے میں اس وقت پتا چلا تھا جب مجھے کم از کم ایک سال ہو چکا تھا اس ڈائری کو کالا اور نیلا کرتے ہوئے!۔
میں نے ڈائری میں ہمیشہ شاعری ہی لکھی، کبھی کسی ڈائجسٹ سے دیکھ کر کبھی کسی میگزین سے دیکھ کر، کالج کے زمانہ میں لاہور کے فٹ پاتھوں سے کتابیں خرید کر بھی۔۔۔۔خود سے نثر کبھی نہ لکھ سکا، کئی دفعہ سوچا کہ لکھوں لیکن بے سود ہی رہا۔ پتا نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے روز کے معمولات ڈائریوں میں قلمبند کرتے ہیں، میرے شب و روز میں تو کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ ہی نہیں ہوتا تھا، بس گزر  ہی جاتا تھا دن، اور تو کچھ نہیں ہوتا تھا!
ایک دو دفعہ لکھنے کیلیے بیٹھا اور شروع بھی کیا: "میں آج صبح ساڑھے سات بجے اٹھا، باتھ روم گیا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کر کرا کے سکول چلا گیا۔ آٹھ پیریڈ کلاس میں یٹھا رہا۔ مِسیں اور سَر ور (یہ سَر کی جمع ہے: سَ+رُور ) آتے جاتے رہے۔ بیچ میں آدھا گھنٹا بریک بھی ہوئی جس میں میں نے سموسہ کھایا اور بوتل پی۔ کینٹین والے چاچا جی نے دو روپے بقایا دئیے۔ تھوڑا سی اچھل کود کی۔ گھر واپس آ گیا۔"
اب مجھے بتائیں کہ اس میں لکھنے والی کیا بات ہے۔۔۔ میرے خیال میں سکول کے سب بچوں نے یہی کیا ہوگا۔ لہٰذا صفحہ پھاڑ دیا ۔
کبھی کبھار جو شاعری نوٹ کر لیا کرتا تھا وہ بھی کالج میں  آکر تھوڑی کم ہوئی اور پھر یونیورسٹی میں بالکل ہی رہ گئی۔ حال ہی میں ایک نئی نکور ڈائری "پھانڈے" میں ملی تو  پھر سے سوچاہم بھی اپنے دن رات کی روداد لکھتے ہیں کہ کیا پتا ایک وقت ایسا آئے کہ لوگ میری ڈائری کو کتابی صورت میں چھاپ دیں اور  پھر درسی کتابوں میں میری خود نوشت سے اقتباسات شامل ہوں۔۔۔واہ واہ واہ۔۔۔۔ بس اسی‘ ممکنہ  ضرورت’ کے پیشِ نظر میں نے کچھ عرصے تک اپنی "مستقبل کی تاریخ "خود تخلیق کی پر اب وہ بھی بلاگ کی طرح کبھی کبھار پہ ہی چلی گئی ہے۔  ۔۔ چلو باقی کا کام کسی "پروفیشنل" ادیب شدیب سے لکھوا لیں گے۔
یہ ساری بات تو میری اصل تحریر کا پیش لفظ یا تمہید تھی، جو ایک پیراگراف سے بڑھتے بڑھتے لمبی ہو گئی۔۔ اصل میں میں اپنی ڈائریوں سے انتخاب لکھنا چاہ رہا تھا۔ اب الگ پوسٹ میں چھاپوں گا۔
Read On

فلمستانی پوسٹ

9 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 11, 2010
اس تحریر کا بنیادی مقصد فلمستان پر میری پوسٹوں کو "ری پوسٹ" کرنا ہے۔ فلمستان محترم ابو شامل کا فلمی بلاگ ہے جس پر انہوں نے کئے بلاگر ساتھیوں کے ساتھ  فلموں پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ شروع کیا ہے,اور مجھے بھی لکھنے کی اجازت دی ہے۔  ایسے بلاگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر مخصوص موضوعات کا ہی احاطہ کیا جائے۔ خاص طور پر اردو بلاگنگ میں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موضوعاتی بلاگ کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے۔ اردو بلاگنگ میں فی الحال ذاتی بلاگ، یا مکس پلیٹ یا حالاتِ حاضرہ کے بلاگ زیادہ ہیں۔
فلمستان پہ اب تک میں دو تحاریر یعنی دو فلموں کا تجزیہ لکھ چکا ہوں۔ ذیل میں ان دونوں پوسٹوں کے اقتباسات اور اصل پوسٹ کا لنک موجود ہے:

نیک، بد اور بدصورت یعنی The Good, The Bad and The Ugly(اطالوی نام: Il buono, il brutto, il cattivo) ایک پرانی کلاسیک اطالوی اور مغربی اسپیگھٹی طرز کی فلم ہے۔ سن 1966ء  میں بننے والی فلم کے ہدایت کارSergio Leone اور ستاروں میں کلنٹ ایسٹ ووڈ(Clint Eastwood) ، لی وین کلف (Lee Van Cleef) اور ایلی والچ(Eli Wallach) شامل ہیں۔ یہ فلم تین فلموں پر مبنی “ڈالر سیریز” کی آخری فلم ہے۔ فلم کی کہانی تین بندوقچیوں کے گرد گھومتی ہے، جو چوری کے مال پر مشتمل ایک مدفون خزانے کی تلاش میں ایک دوسرے سے بازی لینے کے چکر میں رہتے ہیں۔
فلم امریکی خانہ جنگی کے زمانے میں لے جاتی ہے جہاں ایک اشتہاری چور اور قاتل (The Ugly, ایلی والچ) کو ایک بہترین نشانے باز (The Good, کلنٹ ایسٹ ووڈ) پکڑوا دیتا ہے اور اہلکاروں سے انعام کے 2000 ڈالر لے کر مجرم کی پھانسی کے وقت دور سے رسی پر نشانہ لگا کر اسے بھگا دیتا ہے۔ بعد میں وہ قصبے سے باہر مل کر انعامی رقم تقسیم کر لیتے ہیں اور یوں دونوں منفرد چور جوڑی بنا کر دوسرے قصبوں میں جا کر یہی کرتے ہیں جہاں ٹوکو یعنی مجرم کی انعامی رقم بڑھ چکی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔

فلمستان پر مکمل پوسٹ پڑھیں ۔

ایک یادگار سیر (A Walk to Remember) سن 2002ء میں بنائی گئی ایک رومانوی فلم ہے۔ فلم اسی نام کے ایک ناول پر مبنی ہے جو کہ نکولس سپارکس(Nicholas Sparks) نے 1999 ء میں لکھا تھا۔ فلم کے ہدایتکار  آدم شینک مین(Adam Shankman) ہیں اور مرکزی کردار شَین ویسٹ (Shane West) اور  اد اکارہ و گلوکارہ مَینڈی مُور(Mandy Moore) نے ادا کئے ہیں۔  فلم کے مرکزی کردار  شمالی کیرولائنا کے ایک سکول کے طالبعلم ہیں۔  لینڈن کارٹر(Landon  Carterشین ویسٹ)  بری صحبت کا شکار  لیکن ایک لائق اور نمایاں طالبعلم ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا اور دوسروں کو تنگ کرنا اس کا مشغلہ ہے۔۔۔۔

فلمستان پر مکمل پوسٹ کا مطالعہ کریں

امید ہے آپ کو یہ کوشش پسند آئے گی۔
Read On