متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

5 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, July 20, 2010
آخر کار تبدیلئ پتہ کا دن آن پہنچا۔
اب تک میں کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا۔ سہولیات تو سب ہی تھیں لیکن اپنے گھر کا شوق تو پھر ہوتا ہی ہے نا۔ دو ایک دفعہ مکان دیکھے لیکن بھیا پیسا کون لگائے۔ سوچتا تھا کہ کام دھندے سے لگ جاؤں پھر ہی یہ شوق پورا کروں گا۔ اس دوران بس دو دفعہ ہی مکان تبدیل کرنا پڑا۔ ظاہر ہے جی ’نوکر کِیہ تے نخرہ کِیہ‘ ۔۔۔۔۔ مالک مکان نے تو کیا ہی نکالنا تھا  بیچارے کا اپنا دیوالیہ نکل گیا!  اب  اس مکان میں رہتے ہوئے تو کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ اچھی سلام دعا بن گئی ہے محلے والوں سے۔  سب یاروں دوستوں کو گھر کے ایڈریس کا پتہ بھی پتا ہے۔ لیکن و ہ جو دل میں ایک خواہش سی تھی وہ باقی تھی کہ  اب کچھ دنوں پہلے ہی  ایک نئی راہ نظر آ گئی اپنی مرضی کا مکان لینے کی۔ وہ بھی بالکل مفت۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا نہ سہی پر آ تا تو ہے نا۔۔۔! بس اسی کے لیے دوڑ دھوپ کی۔  جان پہچان بالکل نہ تھی اس گلی میں۔   پہلے پلاٹ لینا پڑا، بس بکنگ کرواؤ اور کام شروع کر دو۔ دوستوں* کی مدد سے اچھا سا مکان بنا لیا۔ سب ہی بھلے لوگ ہیں، بہت مدد کی میری اس سارے کام میں۔ مکان بنائیں تو پھر نیا سامان بھی لینا پڑتا ہے۔ نیا فرنیچر، پردے شردے، ضرورت کا سبھی سامان لے لیا۔ مکان کو گھر بنا لیا ہے اب۔ ارادہ تو تھا کہ بالکل نیا اور جدید قسم کا رنگ روغن کرنا ہے لیکن فی الحال اس کیلئے مزید محنت کی ضرورت تھی۔ لہٰذا جیسے تیسے کر کے کرم فرماؤں کے تعاون سے ریڈی میڈ عمدہ سا روغن پھیر دیا ہے۔ چلو کوئی نہیں، یہ کام تو ساتھ کے ساتھ بھی ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کل ہی کرائے کے مکان سے سارا سامان اور لوازمات ’ایکس ایم ایل‘ کے ٹرک بھر بھر کے نئے گھر میں شفٹ کئے ہیں۔ سارا سامان مناسب جگہوں پہ رکھ رکھا کے اب سوچا کہ یاروں دوستوں کو تو  مطلع کر دوں کہ اب مجھے ملنا ہو تو اس پتے پہ تشریف اٹھا کے لائیں۔یہ تو پتا ہی ہوگا سب کو کہ کسی کے نئے گھر جائیں تو خالی ہاتھ نہیں جاتے۔۔۔ہے نا۔۔!
 ویسے آپس کی بات ہے ابھی مجھے نئے گھر میں اوپرا اوپرا سا لگتا ہے۔ لیکن امید ہے کہ کچھ ہی دنوں میں سیٹل ہو جاؤں گا۔ یہ پڑاؤ بھی کامیابی سے ہو گیا۔ اب اس کے بعد تو انشا اللہ اپنا ذاتی ایسا مکان بنانا ہے کہ لوگ دیکھیں تو دانتوں تلے انگلی دبائیں۔۔۔
 لو جی! بہت باتیں سنا لیں، اب ایک اطلاع نامہ تمام دوستوں اور دیگر تمام بلاگ کے وزیٹرز کے نام:
عوام الناس  اور خواص اللناس سبھی کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں بقلم خود یعنی ’عین لام میم‘ اس بلاگ سے کوچ کر کے اپنی ’  نون واؤ  ہ، چھوٹی اور بڑی ے‘ سب کو لے کر اپنی ذاتی ڈومین پر شفٹ ہو گیا ہوں۔ لہٰذا جو بھی کہنا یا کرنا ہو وہیں آ کر کیا جائے تاکہ مجھے بھی پتا چل سکے۔ تمام بلاگران سے بھی گزارش ہے کہ فدوی کے بلاگ کا پتہ اپنی اپنی بلاگ رولوں یا لسٹوں میں ٹھیک کر لیں (اور جنہوں نے ابھی تک مجھے شامل نہیں کیا تھا وہ بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں!)۔ بلاگ کا پتہ کچھ یوں ہے:


تمام دوستوں، جنہوں نے فیس بک سے لیکر تبصروں تک،  کسی بھی انداز میں تعاون کیا، میں ان کا تہہِ دل سے مشکور ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
Read On

اپنی ڈومین؛ ایک خواب

14 تبصرہ (جات)۔ Thursday, July 15, 2010
حالات بڑے ناسازگار ہیں۔ بلاگستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف مذمتوں اور صفائیوں کا دور چلا ہوا ہے۔ ہم تو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ پہلے بھی سادہ بلاگر تھے، اب بھی سادہ بلاگر ہیں۔ شروع شروع میں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ کس نے کس کیلئے کیا لکھا ہے کیونکہ میں سب بلاگز نہیں پڑھ پاتا۔  کئی دفعہ اس طرح کی بلاگ پوسٹوں کی مذمت بھی کی ہے، اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہاں! یہ ضرور کر سکتے تھے کہ اس میں حصہ دار نہ بنیں تو یہ بخوبی کیا ہے۔ سادہ سادہ سی پوسٹیں چھاپ دیتے ہیں۔ جو پڑھے اس کا بھی بھلا، جو نہ پڑھے اس کا بھی بھلا۔  شازل نے دو ایک دفعہ کچھ مشکوک فہرستوں کا ذکر کیا ہے جن میں بلاگستان کے ’ٹاپ 10‘ افراد کے نام موجود ہیں۔ جو ایک دوسرے کے بلاگوں پہ تبصرے کر کُر کے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ لسٹیں ابھی منظرِ عام پہ نہیں آئیں اور فی الحال بلاگستان کی صورت حال دیکھتے ہوئے آئیں گی بھی نہیں۔ ہمیں بھی انتظار ہے کہ دیکھیں ہم بھی اس بلند مقام پہ ہیں یا نہیں۔۔۔ :((
خیر یہ تو تھی بائی دا وے بات، اصل بات یہ ہے کہ  میں نے کل ساری رات جاگ کے جناب محترمی و مکرمی محمد اسد صاحب، بلا عنوان والے، کے لکھے گئے نہایت سادہ اور بہترین ٹیوٹوریل سے .co.cc پہ ایک عدد سائٹ بنائی اور پھر byethost پر ہوسٹنگ بھی قائم کر لی۔ مجھے ان تمام چیزوں کے بارے میں ذرہ برابر بھی نہیں پتا تھا اور میں عرصہ ہائے دراز سے یہی سمجھتا تھا کہ اپنی ڈومین پر جانے کیلئے تو بھائی جیب میں پیسا ہونا چاہیئے۔ لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، اگر آپ اپنی ڈومین پہ جانا چاہتے ہیں تو کئی ایک ایسی سائٹس ہیں جو مفت سہولت فراہم کرتی ہیں۔ میں نے جب کوئی ایسی سائٹ دیکھی جو مفت یہ سہولت دیتی تھی تو مجھے یہی لگتا تھا کہ یہ بعد میں آپ سے پیسے مانگ لیں گے اور آپ کا بلاگ یا سائٹ بند کر دیں گے۔ لہٰذا جو ہے اسی پہ گزارا کرو۔ مجھے بلاگر سے کوئی شکائت تو نہیں ہے، بس میں چاہتا ہوں کہ اپنی ڈومین کا مزا بھی چکھ لینا چاہیئے۔ اسی لئے کل خود کلامی کرنے والے عثمان نے جب یہ بتایا کہ وہ اپنی ڈومین پہ سمیت اپنے بلاگ کے شفٹ ہو گئے ہیں اور تبدیلی کا نشان بن گئے ہیں تو مجھے بھی یہی شوق چرایا۔ میں نے محض معلومات کیلئے ان کے بتائے لنکات کی سیر کی تو بلا عنوان کے ذریعے یہ کام انجام پایا۔ ابھی تو شروعات ہے، میں اس سلسلے میں محمد اسد صاحب سے مزید معلومات اور تعاون کا یقین رکھتا ہوں۔ اس سلسلے کے دیگر اشتراک میں شامل ہیں
م بلال م، قطرہ قطرہ سمندر والے
جہانزیب بھائی، اردو جہاں والے
نبیل حسن نقوی، اردو ویب والے
اور بھی کوئی ہے تو مجھے ضرور بتائے تاکہ میرا کام آسان ہو۔ کریڈٹ دینے کی پوری ذمہ داری لی جاتی ہے۔ :)

>>ایک سوال: محمد اسد سے میں نے رابطہ کیا ہے، وہ یقیناً بتا دیں گے۔ لیکن اگر آپ کو پتا ہے تو ضرور بتائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی بلاگر کی تمام پوسٹیں سمیت لوازمات کے اپنی ڈومین پہ شفٹ کر سکتا ہوں۔ کیونکہ وہاں تو ورڈ پریس استعمال ہوتا ہے۔؟؟ پلیز ناں مت کرنا!!
Read On

بابا پال سائیں

10 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, July 13, 2010

فیفا ورلڈ کپ میں بابا پال سائیں کی ’آٹھوں خانے چت‘ کرنے والی کامیاب پیشن گوئیوں کے بعد جہاں انہیں مختلف ’دہشت گرد‘ طبقوں کی طرف سے بھون کے کھانے اور زندہ سوشی بنا دینے کی دھمکیاں دی گئی ہیں ، وہیں پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافے کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک پسماندہ اور غریب ملک ہے، اس لئے یہاں ابھی تک مستقبل کا حال جاننے کے پرانے طریقے ہی رائج ہیں۔ جن میں سب سے مشہور  طوطے کے ذریعے فال نکالنا ہے۔ طوطا پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ زبانی و لسانی اعتبار سے بھی لازم و ملزوم  ہے۔ طوطا چشمی کے اس دور میں جہاں  طوطی کی گونجتی آواز کو نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا وہاں بابا پال سائیں جرمنی والے کے اس نئے انداز کو سراہا گیا ہے جس میں کامیاب فریق کے گرد اپنے قانون کی طرح لمبے ہاتھوں یا پیروں کو لپیٹ کر گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

جرمنی کی ہسپانیہ کے ہاتھوں سیمی فائینل کی شکست اور پھر ہسپانیہ کی فائینل میں کامیابی کے بعد تو  آکٹوپس (ہشت پا) بابا پال سائیں کے خلاف بڑھتے ہوئے شدت پسندوں کی وجہ سے اسپین کے وزیر اعظم نے بال سائیں کو اسپین میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ابھی تک بابا پال سائیں کے مرشد نے  آکٹوپس کو بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ نہیں سنایا۔ میری حکومتِ پاکستان سے اپیل ہے کہ اس نادر دیو مالائی مخلوق کو پاکستان میں بلا لیا جائے تا کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کی قسمت جانی جا سکے۔ اور شادیوں، طلاقوں، محبوبوں اور دشمنوں کو قابو کرنے کے جتنے بھی پینڈنگPending مقدمے ہیں، ان کا خاطر خواہ حل نکالا جا سکے۔ویسے بھی اس سے پہلے تک پاکستان میں یہ نایاب جاندار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اور فٹ پاتھوں پر تو خاص طور پہ اس کا کوئی ہم جنس نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب پاکستان میں بھی اس ہشت پائی نسل کو آگے بڑھایا جانا چاہیئے اور اس سے شادیوں، طلاقوں، کاروبار میں کامیابی و ناکامیابیوں سمیت ہر طرح کے کام لئے جانے چاہئیں۔ محبوب کو پکڑ  بلکہ جکڑ کر بنفسِ نفیس قدموں میں گرانے میں تو خاص ٹریننگ  بھی دیئے جانے کے روشن  امکانات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ویسے بھی ’پائی‘ سے متعلقہ الفاظ کو پسند کیا جاتا ہے مثلاً چار پائی، ہاتھا پائی اور پائی پائی۔ لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ اردو زبان میں ہشت پا کو بھی خوشدلی سے شامل کیا جائے گا۔ اور اس سے مل ملا کر ہشت پائی الفاظ کو بھی جگہ دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ہشت پاؤوں کی نسل بھی سامنے آئے گی۔ جن میں بنگالی ہشت پا، ہشت پا کالیا اور  ڈبل شاہی ہشت پا زیادہ نمایاں ہوں گے۔ایم اے، بی اے، سی اے، کی اے! والے ہشت پا تو عام  ملنے لگیں گے۔ سنا ہے کہ آکٹوپس کی عمر تین سال ہی ہوتی ہے اور یہ بابا پال سائیں اپنی پرائم ایج  گزار چکے ہیں اور تقریباً ڈھائی سال کے ہیں۔ اس ضعیف العمری میں تو ان کیلئے پاکستان ایک جنت سے کم نہیں کہ یہاں زندہ آکٹوپس لاکھ تو مرا آکٹوپس سوا لاکھ کے مصداق بابا پال سائیں کا مزار بنانے کی بھی گنجائش ہے۔ نو گزی قبریں تو پاکستان میں پائی ہی جاتی ہیں ، اب ایک آٹھ گزی بھی ہو جائے۔ جہاں ملنگ آٹھ پہرہ روزہ رکھیں گے اور آٹھ آنے کا چڑھاوا دیا جائے گا۔۔۔!!
پال کی جتنی آمدنی جرمنی میں ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان میں متوقع ہے، یہاں تو اس کی آٹھوں ٹانگیں گھی میں ہوں گی۔۔!!
Read On

ڈُوڈل آرٹ Doodle-Art

18 تبصرہ (جات)۔ Friday, July 9, 2010
بچپن سے مجھے یہ عادت رہی کہ جب مین کچھ سن رہا ہوں، خاص طور پر کمرہ جماعت  میں(یا لیکچر ہال میں)  تو میرے ہاتھ چلتے رہتے ہیں۔ سامنے کتاب ہو، کاپی ہو یا پھر ڈیسک تو ہوتا ہی ہے تو جو بھی قلم یا پین ہاتھ میں ہے ، وہ بس آگے پیچھے، دائیں بائیں چلتا ہی رہے گا۔ لکیریں، پھول بوٹے، دائرے، دستخط، نام یا لیکچر میں سے کوئی ایک خاص لفظ بار بار مختلف انداز میں، بس کچھ نہ کچھ تخلیقی مراحل میں رہتا ہی ہے ۔  اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہوتا تھا کہ میں سن نہیں رہا ہوتا، بس یہ عادت سی بن گئی ہے۔ سکول کے علاوہ کیونکہ سکول کی کاپیوں یا کتابوں پہ تو کچھ بھی ’آف دا ریکارڈ‘ لکھو یا بناؤ تو  شامت ہوتی تھی۔ کالج اور پھر یونیورسٹی میں اساتذہ کی یہ ’اجارہ داری‘ ہماری کتابوں ، کاپیوں یا رجسٹروں پہ نہیں رہتی سو ہر ایک لکھنے کے قابل صفحے پر میں کچھ نہ کچھ حصہ اس گلکاری کیلئے ضرور خود بخود ہی مختص کر دیتا ہوں (پہلا صفحہ ، اور ہر صفحے کا اوپری حاشیہ تو میرا ہوتا ہی ہے!)۔ کئی دفعہ اس عادت سے تنگ آکر اور بعض اوقات ضروری پوائینٹس ان گلکاریوں میں گنوا دینے کی باعث میں نے اس عادت کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی۔ اور  صفحات کو انتہائی صاف رکھنے کی مہم چلائی۔ سنتے سنتے اچانک یاد آیا کہ اوہو! تاریخ تو لکھنا ہی بھول گیا آج کی۔ سو سر کی بات سنتے اور سر دھنتے ہوئے ہاتھ غیر محسوس انداز میں چلنا شروع ہوا۔۔۔ یہ کیا میں تو تاریخ لکھ رہا تھا اور یہ میں نے ’جولائی‘ کو ڈریگن کیسے بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔! یہ ’2010‘ کی آنکھیں اور ناک۔۔۔۔۔۔۔ اف توبہ! میں نہیں رہ سکتا بے معنی لکیروں کو شکل دئیے بغیر!! بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں، جیسے کہ ڈاکٹر حضرات (جی ہاں، وہی نفسیاتی) اسے ذہنی کشمکش اور ذہن پہ کسی بوجھ یا فرار کی راہ قرار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ درست بھی ہو۔ بورنگ لیکچر سے کون فرار نہیں چاہتا!
وجہ جو کوئی بھی ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپنی ساری زندگی اس خود ساختہ ’ آرٹ کی خدمت‘ کرنے کے بعد کچھ ماہ پہلے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ جو میں "کچ مچوڑے" ڈالتا رہتا ہوں یہ تو  ایک نئی اور جدید آرٹ کی قسم ہے جسے انگریزی میں ’ڈوڈل‘ یا Doodle Art کہتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ در حقیقت کچھ بھی بنانے کا نام ہے۔ جی ہاں کچھ بھی! ایسی تخلیقات جو آپ اپنے تخیل کو استعمال کرتے ہوئے بناتے ہیں۔ اور ہو سکتا ہے ان کا کوئی ظاہری تھیم  نہ  ہو یا بس وہ صرف ایک صفحہ بھرنے کی مشق ہو یا خالی خولی دائروں میں ہی کوئی نقطہ ڈھونڈ کر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے اور پھر مزید دائرے۔۔۔۔۔۔۔ ہوں۔ یعنی کہ اصل میں یہ کوئی آرٹ نہیں ہے ، بس یہی اس کا آرٹ ہے۔
ڈوڈل آرٹ کے بارے میں آپ یہاں، یہاں اور یہاں سے مزید جان سکتے ہیں۔ ڈوڈل آرٹ کی اصل بات یہ ہے کہ ہر کوئی’ ڈوڈلتا‘ ہے اور ہر کوئی ڈوڈل بنا  سکتا ہے۔ّ

میں کچھ عرصہ پہلے اپنی  یونیورسٹی کی طرف سے یو ای ٹی لاہور میں ہونے والے ڈوڈل مقابلے میں شامل ہوا تھا۔ اسی مقابلے کی بدولت مجھ پر اپنی اس ’صلاحیت‘ اور’ بیش بہا آرٹ ‘کا حادثاتی طور پر ادراک ہوا تھا۔
تو پھر لیجئے حاضر ہیں میری کچھ ذاتی ڈوڈلیاں۔۔۔
سب سے پہلے کچھ ’پری ڈوڈل‘(pre-Doodle)۔۔۔۔ جو اصل میں اس سب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں۔


 میرے اصل "کچ مچوڑے" ردی کی صورت میں گھر پڑی کتابوں کاپیوں میں ہیں، اور کالج کے زمانے کے صفحوں پر تو میں نے وہ تباہی پھیری ہوئی ہے’ آرٹ‘ کی کہ بس۔۔۔ ایف ایس سی کی  اردو کی کتاب میں تو میں نے اپنی لیکچر دیتی ہوئی قابل صد احترام استانی صاحبہ کا پورٹریٹ بھی بنایا ہوا ہے۔ امتحانوں میں تو فنونِ لطیفہ و غیر لطیفہ میرے سر پہ سوار ہوتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے ہی کئی ڈوڈل میری قلم کی گود سے جنم لیتے رہتے ہیں۔(ایک الگ پوسٹ میں نمائش کیلئے ضرور شائع کروں گا!)
یہ جو نیچے والے دوڈل ہیں یہ اصل میں ڈوڈل سمجھ کر ہی بنائے گئے ہیں اور زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ یہ سب مقابلے سے پہلے کے ہیں۔ کچھ لا شعوری ڈوڈل بھی شامل  ہیں۔



 اوپر بائیں طرف والے ڈوڈل (سرنگ نما ) کو آپ میرا پہلا باقاعدہ ڈوڈل کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت میں انٹرنیٹ پر اس آرٹ کے نام کے بارے واقف ہو چکا تھا۔

اب یہ نیچے والے ڈوڈل اصل میں مقابلے کیلئے بنائے گئے تھے۔ ان میں میں نے ایک رنگ دار پنسلوں سے، ایک سیاہ مارکر سے اور ایک کچی پنسل سے بنایا ہے۔


بس یہ دو اور تصویریں دیکھ لیں، اس کے بعد میں اجازت چاہوں گا۔۔۔۔۔
مزید آرٹ ورک کے ساتھ اگلی قسط میں حاضر ہوں گا۔ برداشت کرنے کا شکریہ۔
Read On

کارٹون کہانی

9 تبصرہ (جات)۔ Thursday, July 8, 2010
جب ہم چھوٹے تھے تو پی ٹی وی کا زمانہ ہوا کرتا تھا جس پہ سہہ پہر تین بجے نشریات کا اغاز کیا جاتا تھا اور قاری سید صداقت علی کے ’اقرا ‘ کے بعد کارٹون لگا کرتے تھے۔  ہماری واحد تفریح وہی کارٹون ہوا کرتے تھے۔ یا پھر صبح صبح سات بجے والے مختصر کارٹون ہوا کرتے تھے لیکن وہ ہم عام طور پر نہیں دیکھ پاتے تھے کیونکہ ہمارا اسکول ذرا دور تھا اور ہمیں سکول بس لینے آ جاتی تھی۔ "کیپٹن پلا نِٹ" (اس وقت Planet کو پلانِٹ ہی یاد کیا ہوا تھا)، وولٹران، ہِی میں  اور کونین ہی ہمارے خوابوں کی دنیا میں بستے تھے۔ میرے پسندیدہ کیپٹن پلانٹ تھے۔ یہی تین چار کارٹون اور ان کی وہی تین چار اقساط بار بار دیکھ دیکھ کر یاد بھی ہو گئی تھیں۔ وقت نے انگڑائی لی اور  چھتوں پہ لگے  اَنٹینے بدلنے لگے۔ یو ایچ ایف اور وی ایچ ایف کا کوئی الٹ پھیر چلنے لگا جو کہ اس وقت بھی میری سمجھ سے باہر تھا اور اب بھی۔ این ٹی ایم، شالیمار نیٹ ورک وغیرہ تشریف لانے لگے اور پھر بعد میں پی ٹی وی ورلڈ آنے لگا۔ اس وقت تک کارٹونوں نے واحد اردو سیریز ’ٹریژر آئیلینڈ‘ تک ترقی کر لی تھی۔ جس کو دکھا دکھا کر وہ بھی بچوں کو زبانی یاد کروا دی گئی تھی۔  ہمارے ہمسائے میں جو گھر تھا انہوں نے اس زمانے میں ڈش اینٹینا لگوایا ہوا تھا اور وہاں سونی ٹی وی اور زی ٹی وی آیا کرتے تھے۔ سونی پر کارٹونوں کا خصوصی  انتظام تھا اور وہ ہندی (یعنی اردو میں!)میں لگتے تھے۔ ہمین بھی کبھی کبھی موقع مل جایا کرتا تھا دیکھنے کا۔ وہاں ڈزنی کے کارٹونوں سے شناسائی ہوئی۔ الہ دین، لٹل مرمیڈ، گوفی اور دیگر سے تعارف ہوا۔  یہ بھی اچھے لگنے لگے۔ اردو میں کارٹونوں کا اپنا مزہ تھا۔ مجھے گھوسٹ بسٹرز بہت پسند تھے۔ لیجئے جناب! اچانک ہی کیبل کا زمانہ آگیا۔ ٹانواں ٹانواں کیبل لگنے لگی، میرا بھائی کبھی کبھی چھت سے گزرتی کیبل پر  ’کنڈی‘ لگا کر  مستفید کر دیا کرتا تھا۔  پھر محلے کے گھروں میں کیبل لگنا شروع ہوئی تو ہمارے ہاں بھی آ گئی۔ اس زمانے میں میں کالج میں تھا شاید، لہٰذا  دیکھنے کا شوق ختم ہو چکا تھا۔ طویل عرصہ ان کارٹونوں کی دنیا سے دور ہی گزرا۔ بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور پھر بھتیجوں کی آمد ہوئی۔ بس پھر کیا تھا، ایک ایسا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ ہمارے گھر میں ایک ٹی وی جو کہ بھائی کے کمرے میں ہے اس پر صرف ایک ہی چینل لگتا تھا اور وہ تھا کارٹون نیٹ ورک۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کو، بلا تخصیص جنس و عمر کارٹون ہی دیکھنے پڑتے ہیں۔ میں جب بھی بیٹھ جاتا تو پھر سب کے سونے کے بعد ہی اٹھتا۔ مجھے پھر سے کارٹونوں کی دنیا مل گئی تھی اور اس دفعہ یہ دنیا چار قسطوں پہ مشتمل نہیں تھی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کارٹون موجود تھے۔  ایک سے ایک نرالا، ایک سے ایک رنگین۔ ایسے کارٹون بھی تھے جو صرف شرارتی تھے، ایسے بھی تھے جو صرف پڑھاکو تھے۔ زنانہ کارٹون بھی وافر تعداد میں موجود تھے۔
پہلے بچے جو کارٹون بھی ملتا تھا اس کو پسند کر لیتے تھے۔ انتخاب آسان تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا،  بچے ہزاروں میں سے کسی ایک دو کو ہی پسند کرتے یں، نت نئے کارٹون چینلز کی بدولت بچے بھی بالکل بڑوں کی طرح  ایک سے دوسرے پہ منتقل ہوتے ہیں۔ تھوڑا اسا دیکھا، اچھا لگا تو ٹھیک ورنہ بدل ڈالو!
بھلا ہو ہمارے پڑوسی ملک کا اب تو ہندی یعنی اردو میں بھی کئی کارٹون چینل ہیں۔ وقت کی ضرورت تھی، انہوں نے اپنا لی اور چونکہ یہاں بھی وقت کی ضرورت تھی لہٰذا ہم نے چرُا لی( یا ادھار لے لی)۔ بچے ان کارٹونوں کی زبان بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ میرا ایک بھتیجا کثرتِ کارٹون بینی کے باعث خود بھی ایک کارٹون بن گیا ہے۔ بڑے ایکشن مارتا ہے، بڑے ڈائلاگ رٹتا ہے۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی، اسے یہ بھی پتا ہے کہ ہم اس وقت 21ویں صدی میں ہیں اور جو  ڈوریمان روبوٹ ہے وہ 22ویں صدی سے آیا ہے۔ اسے یہ بھی پتا ہے کہ یہ کارٹون ہیں اور حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ یہی خواہش رکھتا ہے کہ 22ویں صدی میں  ایسا ہو جائے!
اب چونکہ اینی میٹڈ فلموں کا زمانہ ہے اور میں  اینی میٹڈ فلمیں بہت شوق سے دیکھتا ہوں، اور میرے گھر میں سبھی اینی میٹڈ فلموں کا تھوڑا بہت ششوق رکھتے ہیں ،اس کی وجہ میرے بھتیجوں کی زبر دستی کی کارٹون نشریات ہے جو گھر میں چلتی رہتی ہے۔ اسی لئے فلمستان پر بھی ایک اینی میٹڈ فلم "ٹوائے سٹوری 3" پر تجزیہ لکھا ہے۔ اس کے پہلے دونوں پارٹ میں اپنے بھتیجوں کے ساتھ پچھلے ہفتے ہی دیکھ چکا ہوں۔ تیسرا پارٹ بھی ڈاؤنلوڈ کیا اور نا چاہتے ہوئے بھی کیم پرنٹ میں دیکھ لیا۔ :(۔
تجزیہ پڑھنے کیلئے فلمستان پر جائیں۔
Read On

نئی تھیم؛ سادگی اور پُرکاری

8 تبصرہ (جات)۔ Saturday, July 3, 2010
لیجئے جناب! پورے دن کی محنت کے بعد آج میں نے اپنے بلاگ کو نئے اور سادہ سے ٹیمپلیٹ میں ’بے رنگ‘ دیا ہے۔
میرے بلاگ کی گذشتہ تھیم بھی رنگوں سے عاری تو تھی لیکن اس میں کافی ’ششکے‘  وغیرہ تھے، اس لئے وہ بعض اوقات لوڈ ہونے میں وقت لیتی تھی۔ ویسے اس دیری میں زیادہ ہاتھ میرے ہاسٹل کے انٹرنیٹ کنکشن کی رینگتی ہوئی رفتار کا ہے، جو کہ کثرتِ ڈاؤنلوڈنگ اور  تقریباً سات آٹھ کمپیوٹروں پر چلتی ہما وقت ’ٹورنٹات‘ کے باعث کچھوے کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔
"ہمیشہ" کی طرح یہ نئی تھیم بھی میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے، یعنی کہ بنے بنائے ریڈی میڈ ٹیمپلیٹ کو اردو کیا ہے۔ اور اس کو اپنے بلاگ کے مطابق ڈھال دیا ہے۔ کافی عرصے سے میری یہی کوشش تھی کہ کوئی بالکل سادہ سی صاف ستھری تھیم اپنا لوں۔۔۔۔بلاگ کیلئے!
اس ٹیمپلیٹ میں میں نے تبصروں کیلئے  اردو ایڈیٹر بھی چپکا دیا ہے اور خوشی کی بات یہ کہ وہ صد فیصد کام بھی کر رہا ہے۔ اس بلاگ کی خاص یا پھر عام بات یہ ہے کہ اس میں ڈبے ہی ڈبے ہیں۔۔۔اسی لئے اس کا نام "سادہ ڈبہ ٹیمپلیٹ" ہے۔ آج یا کل میں یہ تھیم اپلوڈ کر کے فلاحِ عامہ کیلئے پیش کر دوں گا۔ اور ربط بھی یہاں پوسٹ کر دوں گا۔ اس کے علاوہ اردو محفل میں بھی لگا دوں گا۔ بے فکر رہئے!
ویسے مجھے تو یہ تھیم فی الحال پسند ہے، آپ لوگوں سے بھی فیڈ بیک کی درخواست ہے، اور اگر کسی کو اس میں کائی "کیڑا" یا بگ نظر آئے تو برائے مہربانی اس کو نکالنے کے ساتھ ساتھ کوئی "کیڑا مار" نسخہ بھی بتانا مت بھولئے گا۔۔۔!!۔
Read On

دو مزید بلاگسپاٹ ٹیمپلیٹس

8 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, June 29, 2010
آج پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، دو مزید نئی نکور بلاگسپاٹ اردو ٹیمپلیٹس کے ساتھ۔  امید ہے یہ بھی پسند آئیں گی۔

1۔ ونٹیج پیپر اردو (VintagePaper-Urdu)

ڈاؤنلوڈ روابط:
اردو ویب سے ڈاؤنلوڈ کریں
متبادل ربط

2۔ کافی ڈیسک۔ اردو (Coffee-Desk-Urdu)
یہ ٹیمپلیٹ پاکستانی کی فرمائش پر اردو کی ہے۔ امید ہے انہیں اور باقی سبکو پسند آئے گی۔ مجھے تو بہت اچھی لگی ہے۔



ڈاؤنلوڈ روابط:
اردو ویب سے اتاریں۔
متبادل لنک

مزے کریں!!۔
Read On

بلاگسپاٹ کے دو نئے نکور اردو ٹیمپلیٹس

19 تبصرہ (جات)۔ Monday, June 28, 2010
لو جی محترم، بھائی جان، قدر دان، میزبان، آلو والا نان، پاندان وغیرہ وغیرہ!
آج میں اپنے تمام اردو بلاگر ساتھیوں کیلئے انتہائی حقیر، پر تخسیر، دلگیر۔ راہگیر، گاجر کی کھیر جیسا تحفہ لیکر آیا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ پسند آئے گا۔ لمبی چوڑی بات کرکے آپ کا اور اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گا۔ :)
اردو بلاگستان کی بڑھتی ہوئی رونقوں کو دیکھتے ہوئے میں نے دو انگریزی تھیموں کو اردو میں کیا ہے۔ یہ تھیمیں بلاگر ڈاٹ کام یا بلاگسپاٹ ڈاٹ کام کیلئے ہیں۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ میں نے کوشش کرکے بنائی ہیں، اور چونکہ میں کوئی پروگرامر نہیں ہوں اور نہ ہی ان ایچ ٹی ایم ایل یا ایکس ایم ایل وغیرہ سے کوئی تعلق رکھتا ہوں، اس لئے جو مل جائے صبر شکر کریں۔ اس تمام کاوش میں جہانزیب(اردو جہان والے) صاحب کا تشکیل کردہ اردو کتابچہ کام آیا۔ جو اتنا آسان اور عمدہ ہے کہ میں نے بھی سمجھ لیا۔ اس میں اردو تبصرہ وغیرہ کرنے کیلئے اردو ایڈیٹر موجود نہیں ہے، جو کہ یہاں (اردو محفل) سے دیکھا جا سکتا ہے۔ نبیل بھائی نے کئی ایک ٹیمپلیٹس مہیا کئے ہوئے ہیں ان کا ربط یہ رہا۔ اگر مجھے وقت ملا اور دل بھی کر گیا تو میں بھی ہمت کرکے ان تھیمز میں لگانے کی کوشش کروں گا۔

پہلی  تھیم کا نام ہے موزائکو (Mosaico).


تصویر میں یہ اتنی اچھی نہیں لگ رہی، ویسے زیادہ اچھی ہے۔ :)
یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

دوسری تھیم کا نام ہے آؤٹونو (Outono), یا آپ کچھ اور بھی پکار سکتے ہیں۔
اس کی سکرین شاٹ یہ رہی:

اس تھیم میں ایک چھوٹی سی غلطی رہ گئی ہے (میری دانست میں) ۔ وہ میں جلد  ٹھیک کرکے دوبارہ اپڈیٹ کر دوں گا۔
یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

انشا اللہ میں مزید تھیمز یا ٹیمپلیٹس کو اردو بھی ضرور کروں گا۔ لہو لگا کر شہیدوں میں نام کرنے کیلئے۔ :))۔
کسی بھی قسم کی پوچھ تاچھ کیلئے میں حاضر ہوں۔  اگر کوئی بلاگر کسی تھیم کی اردو فرمائش کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں ہے۔ اینٹرٹین کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ت میں ہی کروں گا۔  :پ
شکریہ
Read On

ڈائری سے انتخاب -1

9 تبصرہ (جات)۔ Saturday, June 26, 2010
وقت ایک ایسا درخت ہے جس کی ہر شاخ پر نئے رنگ کا پھول کھلتا ہے اور جسکے ہر پھل کا ذائقہ دوسرے سے جدا ہے۔اس کا اندازہ مختلف ادراو میں لکھی گئی مختلف ڈائریوں کو پڑھ کر ہوتا ہے، اور بندہ سوچتا ہے کہ کیا یہ اس کی ہی سوچ تھی۔۔۔!
پہلی ڈائری میں 2001ع میں لکھے گئے اشعار سے انتخاب:
آغاز میں علامہ اقبالؒ کے نعتیہ اشعار۔۔۔۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طہٰ
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شروع میں میرا شاعری پڑھنے کا واحد ذریعہ گھر میں آنے والے ڈائجسٹ اور رسالے ہوا کرتے تھے۔
پتا نہیں کونسے رسالے سے لکھے تھے یہ والے انقلابی اشعار:
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
مانا کہ اس جہاں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار تو کم کر گئے گزرے جہاں سے ہم
ساحر لدھیانوی
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے، بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
بیدل حیدری
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
تسلیم کے رات اندھیری ہے
آلام کی گھمن گھیری ہے
تیرا تن زخموں سے چور بہت
تیرا دل غم سے رنجور بہت
میرا تن ، من، دھن تجھ پر قربان
اے کعبہ دل، اے معبدِ جان
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جس دھول کی مٹی سے ہوا قافلہ اندھا
خود قافلہ سالار کی ٹھوکر سے اُڑی ہے
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میں چھوڑ سکتا نہیں ساتھ استقامت کا
میری اذان سے جوشِ بلال مت چھینو
ابھی کتاب نہ چھینو تم ان ہاتھوں سے
ہمارے بچوں کا حسن و جمال مت چھینو
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اور میری بہت پسندیدہ نظم ، غالباً ابنِ انشا کی ہے:
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ہر اک شے پہ مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلا لگا ہے اسی شان سے
جو چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
جو چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا جی میں اب دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
چند مزید اشعار:
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے یاتھ بھیگ کر سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر کے بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
نا معلوم
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
حیرت سے دیکھیں قبر کے تازہ اسیر کو
سارے سوال بھولے ہیں منکر نکیر کو
اپنی ہی خواہشات کا کرنے لگا طواف
کس کی نظر لگی ہے بشر کے خمیر کو
جان کاشمییری
:::::::::::::::::::::::::::::::::::
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم پر بھی انسان
بہت خوشی میں بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم
امجد اسلام امجد
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اور آخر میں طارق عزیز شو میں بیت بازی کے دوران نوٹ کیے ہوئے دو اشعار:
نظر اٹھا کر کھلا آسمان دیکھتے ہیں
جو لوگ اڑ نہیں سکتے اڑان دیکھتے ہیں
:::::::::::::::::
کبھی رحمت تڑپتی ہے کہ کوئی آسرا مانگے
کبھی بے آسرا ہو کر دعائیں لوٹ آتی ہیں
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: (باقی آئیندہ)
Read On

بڑا بول

15 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 25, 2010
آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ اس میں غلط کیا ہے اگر کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ میں اپنے زورِ بازو پر آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میں کسی کی سفارش نہیں لگواؤں گا اور خود اپنے لئے راستہ بناؤں گا۔ مجھے ان وزیروں مشیروں کی سفارشیں نہیں چاہئیں۔
غلط۔۔۔۔۔؟ نا مجھے تم یہ بتاؤ کہ اس میں صحیح کیا ہے؟؟
یہ جو تم ڈگریوں کے بل پر بول رہے ہو نا یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ہمارے لئے۔ ایک سیٹی بجائیں تو ہزاروں ڈگریوں والے ناک گھستے پہنچ جائیں گے۔ یہ جو تم اونچا بولتے ہو ناں۔۔۔ سب نکل جائے گا باہر۔ ہواؤں میں اڑتا ہے آجکل۔۔۔۔ کہتا ہے خود جاب ڈھونڈوں گا۔ رُلتے پھرتے ہیں تمہارے جیسے سڑکوں پہ۔۔۔
پرسوں والی بات بھول گئے کیا؟ ۔۔۔۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی جاب تھی۔۔ صرف ملتان میں کوئی پندرہ سو آدمی امتحان دینے آئے تھے۔ باقی پنجاب کے ضلعوں کا حساب آپی لگا لو۔۔۔ صرف 11 بندے رکھنے ہیں گورنمنٹ نے۔۔۔ اوران میں سے بھی کئی تو امتحان سے پہلے ہی رکھے جا چکے ہیں۔ آخر سب وزیروں شزیروں کا دل کرتا ہے کہ ان کا کزن کُزن اس پو سٹ پہ لگے۔۔۔۔۔ باقی جو ان ہزاروں میں سے دو چار رکھنے ہیں، کیا وہ تمہارے جیسے ہوں گے۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔ بات تو ایسے کرتے ہیں جیسے پتا نہیں کونسی پی ایچ ڈیاں کرتے پھرتے ہیں۔
شکر کرو کہ ہمارے تعلقات ہیں "اُچے " بندوں میں۔ وہ بھول گئے چاچے خالد کا بیٹا واپڈہ میں ہے جو، کب سے کوشش کر رہے تھے کہ لاہور ٹرانسفر ہو جائے، آخر بڑے شہروں یں "مواقع" ہوتے ہیں نا جی۔۔۔ سب چاہتے ہیں وہیں آ جائیں۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو آسان کام تھا لیکن اللہ پاک کی خصوصی مہربانی سے ایک دو دفعہ کہا اور ہو گیا۔ بس جی! جو بیٹھے بٹھائے مل جائے اس کی تو قدر ہی نہیں ہے نا انہیں۔ یہ جو چاچے رمضان کا بیٹا گیا تھا نا امتحان دینے، ہم نے دی تو ہے عرضی۔۔۔ بس جی اللہ ہی عزت رکھنے والا ہے۔
میرے بھائی تمہیں نہیں پتا یہاں سب ایسے ہی ہوتا ہے۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو ایسے ہی کرنا ہوگا جی۔ آ جاؤ گے تم بھی لائن پر۔
یہ جو تمہارا بھائی شور مچا رہا ہے نا کہ میں تمہارے وزیروں کی شفارش نہیں لگواؤں گا، میرے لئے نوکریاں بہت ہیں۔۔۔۔ یہ سب دو دن کی بات ہے۔ دیکھ لینا تمہاری نوکریاں بھی انشا اللہ ہم ہی لگوائیں گے۔ یہ جو تم لوگ وزیروں کو کوستے رہتے ہو ناں۔۔۔ تم پڑھ لکھ کر جو زیادہ " بڑا بول" سیکھ جاتے ہو نا۔۔۔ تم بھی ادھر ہی ہو اور ہم بھی ادھر ہی ہیں۔۔۔ دیکھتے ہیں خود لگتے ہو یا ہم لگواتے ہیں۔۔۔!

**بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا جج صاحب!
Read On

ڈائری لکھنا

7 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, June 16, 2010
 ڈائری لکھنے کا شوق تو مجھے صرف اس لئے پیدا ہوا تھا کہ بچپن میں  کئی کہانیوں میں  پڑھا تھا کہ ہیرو کو کہیں کسی خفیہ خانے یا دراز میں سے ایک عدد پاگل سائنسدان یا بوڑھے جادوگر یا اسی طرح کے کسی کردار کی ایک خفیہ ڈائری مل جاتی تھی اور اس میں نلکا ٹھیک کرنے سے لے کر آبِ حیات پانے تک سب کا راز  لکھا ہوتا تھا۔ سوچتا تھا کہ شاید اگر آپ ڈائری خرید لیں تو خود بخود ہی "راز کی باتیں" آپ پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور آپ بھی کوئی کیمیا گری کی کتابِ  لکھ ڈالتے گے۔ لہٰذا سب سے پہلی کنواری ڈائری جو میں نے پہلے صفحے پر  باقاعدہ اپنا نام لکھ کر شروع کی وہ بڑے بھائی کی خفیہ الماری سے چوری کی تھی۔ میرے بھائی کو کسی نے شاید تحفے میں دی تھی اور مجھے وہ بہت پسند تھی کیونکہ اس کے ورق روغنی تھے اور ان پر  زیریں حاشیوں میں کارٹون نما کیڑے مکوڑے بھی بنے ہوئے تھے (کراٹین(یہ میں نے ابھی ابھی کارٹون کی جمع نکالی ہے) مجھے اب بھی پسند ہیں) اور سب سے بڑھ کر اس میں  ایک عدد چھوٹی سی "تالی" بھی لگتی تھی جو کہ "پرائویسی" کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔  میرے بھائی کو اس ڈائری کے بارے میں اس وقت پتا چلا تھا جب مجھے کم از کم ایک سال ہو چکا تھا اس ڈائری کو کالا اور نیلا کرتے ہوئے!۔
میں نے ڈائری میں ہمیشہ شاعری ہی لکھی، کبھی کسی ڈائجسٹ سے دیکھ کر کبھی کسی میگزین سے دیکھ کر، کالج کے زمانہ میں لاہور کے فٹ پاتھوں سے کتابیں خرید کر بھی۔۔۔۔خود سے نثر کبھی نہ لکھ سکا، کئی دفعہ سوچا کہ لکھوں لیکن بے سود ہی رہا۔ پتا نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے روز کے معمولات ڈائریوں میں قلمبند کرتے ہیں، میرے شب و روز میں تو کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ ہی نہیں ہوتا تھا، بس گزر  ہی جاتا تھا دن، اور تو کچھ نہیں ہوتا تھا!
ایک دو دفعہ لکھنے کیلیے بیٹھا اور شروع بھی کیا: "میں آج صبح ساڑھے سات بجے اٹھا، باتھ روم گیا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کر کرا کے سکول چلا گیا۔ آٹھ پیریڈ کلاس میں یٹھا رہا۔ مِسیں اور سَر ور (یہ سَر کی جمع ہے: سَ+رُور ) آتے جاتے رہے۔ بیچ میں آدھا گھنٹا بریک بھی ہوئی جس میں میں نے سموسہ کھایا اور بوتل پی۔ کینٹین والے چاچا جی نے دو روپے بقایا دئیے۔ تھوڑا سی اچھل کود کی۔ گھر واپس آ گیا۔"
اب مجھے بتائیں کہ اس میں لکھنے والی کیا بات ہے۔۔۔ میرے خیال میں سکول کے سب بچوں نے یہی کیا ہوگا۔ لہٰذا صفحہ پھاڑ دیا ۔
کبھی کبھار جو شاعری نوٹ کر لیا کرتا تھا وہ بھی کالج میں  آکر تھوڑی کم ہوئی اور پھر یونیورسٹی میں بالکل ہی رہ گئی۔ حال ہی میں ایک نئی نکور ڈائری "پھانڈے" میں ملی تو  پھر سے سوچاہم بھی اپنے دن رات کی روداد لکھتے ہیں کہ کیا پتا ایک وقت ایسا آئے کہ لوگ میری ڈائری کو کتابی صورت میں چھاپ دیں اور  پھر درسی کتابوں میں میری خود نوشت سے اقتباسات شامل ہوں۔۔۔واہ واہ واہ۔۔۔۔ بس اسی‘ ممکنہ  ضرورت’ کے پیشِ نظر میں نے کچھ عرصے تک اپنی "مستقبل کی تاریخ "خود تخلیق کی پر اب وہ بھی بلاگ کی طرح کبھی کبھار پہ ہی چلی گئی ہے۔  ۔۔ چلو باقی کا کام کسی "پروفیشنل" ادیب شدیب سے لکھوا لیں گے۔
یہ ساری بات تو میری اصل تحریر کا پیش لفظ یا تمہید تھی، جو ایک پیراگراف سے بڑھتے بڑھتے لمبی ہو گئی۔۔ اصل میں میں اپنی ڈائریوں سے انتخاب لکھنا چاہ رہا تھا۔ اب الگ پوسٹ میں چھاپوں گا۔
Read On

فلمستانی پوسٹ

9 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 11, 2010
اس تحریر کا بنیادی مقصد فلمستان پر میری پوسٹوں کو "ری پوسٹ" کرنا ہے۔ فلمستان محترم ابو شامل کا فلمی بلاگ ہے جس پر انہوں نے کئے بلاگر ساتھیوں کے ساتھ  فلموں پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ شروع کیا ہے,اور مجھے بھی لکھنے کی اجازت دی ہے۔  ایسے بلاگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر مخصوص موضوعات کا ہی احاطہ کیا جائے۔ خاص طور پر اردو بلاگنگ میں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موضوعاتی بلاگ کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے۔ اردو بلاگنگ میں فی الحال ذاتی بلاگ، یا مکس پلیٹ یا حالاتِ حاضرہ کے بلاگ زیادہ ہیں۔
فلمستان پہ اب تک میں دو تحاریر یعنی دو فلموں کا تجزیہ لکھ چکا ہوں۔ ذیل میں ان دونوں پوسٹوں کے اقتباسات اور اصل پوسٹ کا لنک موجود ہے:

نیک، بد اور بدصورت یعنی The Good, The Bad and The Ugly(اطالوی نام: Il buono, il brutto, il cattivo) ایک پرانی کلاسیک اطالوی اور مغربی اسپیگھٹی طرز کی فلم ہے۔ سن 1966ء  میں بننے والی فلم کے ہدایت کارSergio Leone اور ستاروں میں کلنٹ ایسٹ ووڈ(Clint Eastwood) ، لی وین کلف (Lee Van Cleef) اور ایلی والچ(Eli Wallach) شامل ہیں۔ یہ فلم تین فلموں پر مبنی “ڈالر سیریز” کی آخری فلم ہے۔ فلم کی کہانی تین بندوقچیوں کے گرد گھومتی ہے، جو چوری کے مال پر مشتمل ایک مدفون خزانے کی تلاش میں ایک دوسرے سے بازی لینے کے چکر میں رہتے ہیں۔
فلم امریکی خانہ جنگی کے زمانے میں لے جاتی ہے جہاں ایک اشتہاری چور اور قاتل (The Ugly, ایلی والچ) کو ایک بہترین نشانے باز (The Good, کلنٹ ایسٹ ووڈ) پکڑوا دیتا ہے اور اہلکاروں سے انعام کے 2000 ڈالر لے کر مجرم کی پھانسی کے وقت دور سے رسی پر نشانہ لگا کر اسے بھگا دیتا ہے۔ بعد میں وہ قصبے سے باہر مل کر انعامی رقم تقسیم کر لیتے ہیں اور یوں دونوں منفرد چور جوڑی بنا کر دوسرے قصبوں میں جا کر یہی کرتے ہیں جہاں ٹوکو یعنی مجرم کی انعامی رقم بڑھ چکی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔

فلمستان پر مکمل پوسٹ پڑھیں ۔

ایک یادگار سیر (A Walk to Remember) سن 2002ء میں بنائی گئی ایک رومانوی فلم ہے۔ فلم اسی نام کے ایک ناول پر مبنی ہے جو کہ نکولس سپارکس(Nicholas Sparks) نے 1999 ء میں لکھا تھا۔ فلم کے ہدایتکار  آدم شینک مین(Adam Shankman) ہیں اور مرکزی کردار شَین ویسٹ (Shane West) اور  اد اکارہ و گلوکارہ مَینڈی مُور(Mandy Moore) نے ادا کئے ہیں۔  فلم کے مرکزی کردار  شمالی کیرولائنا کے ایک سکول کے طالبعلم ہیں۔  لینڈن کارٹر(Landon  Carterشین ویسٹ)  بری صحبت کا شکار  لیکن ایک لائق اور نمایاں طالبعلم ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنا اور دوسروں کو تنگ کرنا اس کا مشغلہ ہے۔۔۔۔

فلمستان پر مکمل پوسٹ کا مطالعہ کریں

امید ہے آپ کو یہ کوشش پسند آئے گی۔
Read On

صرف ایک خوراک جوان بنائے، "گھوڑے" کیطرح؟

9 تبصرہ (جات)۔ Friday, May 28, 2010
آپ نے اخباروں، رسالوں، کیبل کے چینلوں اور سڑکوں کے دائیں بائیں دیواروں پر اکثر اشتہار دیکھے ہوں گے جن میں قبلہ حکیم بڑے صاحب یا مولوی صاحب ڈلےّ والے یا ’مشہورِ زنانہ‘ عامل ناگی کالیا بنگالی وغیرہ ، اعصابی کمزوری یا مردانہ امراضِ خصوصی کے"تسلی بخش علاج" کی یقین دہانی اس جملے سے کراتے ہیں کہ ہماری فلاں دوا یا معجون یا طلا استعمال کرنے سے "مرد بالکل گھوڑے کیطرح جوان ہو جائے گا"۔۔۔۔۔۔ تو صاحبو! اگر خدانخواستہ کبھی کسی کو اس طرح کا کوئی معجون کھانا پڑ جائے تو استعمال سے پہلے قبلہ بہت بڑے حکیم صاحب سے یہ ضرور پوچھ لیجئے گا کہ یہ " گھوڑے" سے ان کی مراد کون سا گھوڑا ہے۔۔۔۔ خشکی والا یا سمندری!
یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ مردانہ کمیونٹی کیلئے بہت اہم ہے اور Worth asking ہے۔ اسکی وجہ سمندری گھوڑے کے بارے میں درج ذیل معلومات ہیں، جو کہ دلچسپ بھی ہیں اور عجیب بھی۔
ہوا کچھ یوں کہ کل ایک فلم میں سمندری گھوڑے کا حوالہ دیا گیا تو میں نے فوراً Sea Horse لکھ کر گوگل کیا۔ زیادہ تر معلومات وکیپیڈیا سے ہی پڑھی ہیں، اس کے علاوہ نیشنل جیوگرافک کی سائٹ بھی وزٹ کی تھی۔ سمندری گھوڑا جسے انگریزی میں Sea Horse کہتے ہیں دنیا میں پایا جانے والا واحد جانور ہے جس میں نر بچے پیدا کرتا ہے۔
سمندری گھوڑا (لاہور چڑیا گھر میں جو بڑا سا، بھدا سا جانور ہے وہ دریائی گھوڑا ہے، اس کے بارے میں یہاں دیکھیں) دراصل مچھلی کی ایک قسم ہے اور اس کا تعلق ہیپو کیمپوس Hippocampus جینس سے ہے۔جینس، فیملی اور اس طرح کی دوسری حیاتیاتی صف بندی کے بارے میں بڑی مشکل مشکل سی انگریزی اصطلاحات لکھی ہوئی ہیں ، وہ آپ اس ربط سے پڑھ سکتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں بنیادی معلومات کچھ اس طرح ہیں:
سمندری گھوڑا ’پائپ فش‘ کے خاندان سے ہے، ان کے جسم پر سکیلز یا چھلکے نہیں ہوتے۔ ان کی جلد پتلی اور جسم کا ڈھانچہ رِنگز Rings یا چھلہ نما ہڈیوں سے بنا ہوتا ہے ۔سمندری گھوڑے کی تقریباً تیس اقسام ہوتی ہیں اور یہ ٹراپیکل اور درمیانے درجہ حرارت کے پانیوں میں پایا جاتا ہے۔ سمندری گھوڑے انتہائی سست تیراک ہوتے ہیں اور سمندر کی تہہ میں موجود سمندری گھاس اور چٹانوں (کورل وغیرہ) میں رہتے ہیں اور چھوٹے جاندار اور ننھے منےجھینگے(Shrimps) وغیرہ کھاتے ہیں۔ ان کی پیمائش یا سائز ڈھائی سینٹی میٹر سے لے کر تقریباً ایک فٹ تک ہوسکتا ہے۔ سمندری گھوڑا یعنی نَر ذرا "گھریلو" قسم کا واقع ہوا ہے اور اپنے علاقے سے زیادہ دور نہیں جاتا جبکہ مادہ یعنی سمندری گھوڑی بے لگام ہوتی ہے، اور "مرد" کے مقابلے میں تقریباً سو گُنا ریادہ رقبے میں گھومتی پھرتی ہے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افزائشِ نسل کیلئے ایک ہی "بندے" پہ اکتفا کرتے ہیں۔ یعنی مونو گیمس (Monogamous) ہوتے ہیں اور ایک افزائشی موسم (یا باری) کیلئے جوڑا بنا کر رہتے ہیں۔ سمندری حیات خصوصاً مچھلیوں میں مادہ انڈے دیتی ہے اور نر سپرم(مادہ منویہ) کے اخراج سے ان کو فرٹیلائز کرتا ہے اور اس کے بعد یہ انڈے ماحول کے رحم و کرم پہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ لیکن سمندری گھوڑوں میں کچھ الٹ قسم کا معاملہ ہوتا ہے اور ما دہ جب انڈے دینے کے قابل ہو جاتی ہے تو وہ یہ انڈے ایک نلی نما ‘چیز’ اووی پوزیٹر Ovipositor کے ذریعے نر کے جسم کی اگلی جانب موجود ایک تھیلی یا Brood Pouch میں ڈال دیتی ہے۔ یہ انڈے جن کی تعداد 100 سے 200 تک ہو سکتی ہے (اوسطاً)، اسی تھیلی میں خودبخود فرٹیلائز ہو جاتے ہیں اور نر کے جسم سے ہی ان کو خوراک یا پرولیکٹن(Prolactin) ملتی ہے، پرولیکٹن وہ ہارمون Harmone ہے جو ممالیہ جانداروں میں دودھ پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس طرح" مردانہ حمل" کا یہ عمل جسے Gestationبھی کہا جاتا ہے، نر کے جسم میں ہی ہوتا ہے اور دو سے چھے ہفتوں کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔اس دوران سمندری گھوڑی وقتاً فوقتاً گھوڑے کو "وزٹ" کرتی رہتی ہے۔ سمندری گھوڑا اعصابی سکڑاؤ (Muscular Contractions) کے عمل سے ان بچوں کو تھیلی سے باہر نکال دیتا ہے۔ پیدائش کے بعد یہ بچے سمندر کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ اور گھوڑی اگلی باری کیلیے "پھر سے جوان" ہو جاتی ہے اور گھوڑا اس باری کا بار اٹھانے کیلیے تیار ہو جاتا ہے۔

(پوسٹ کا بنیادی مقصد معلوماتی ہے، تھوڑا بہت مزاحیہ پیرائے میں "ازراہِ مزاح" ہی لکھا گیا ہے۔ D:)
Read On

خبر؛ جینیاتی سائینس میں ایک اور قدم

0 تبصرہ (جات)۔ Thursday, May 27, 2010
آجکل سائینس اور ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی اب خاصا مشکل ہے کیونکہ کچھ شعبوں کے بارے میں تو ہم نے سنا ہوتا ہے کہ جی یہ بھی کوئی سائینس ہوتی ہے لیکن کچھ کا تو نام ہی پہلی پہلی بار سننے کو ملتا ہے۔ آجکل جینیات یا جینیٹکس Genetics میں نئی نئی دریافتیں سننے کو مل رہی ہیں جیسے کہ کچھ دن پہلے ہی ایک دوست سے سنا کہ جینیاتی سائینسدانوں نے جاندار خلیوں میں مصنوعی ڈی این اے شامل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یعنی کہ ایک خلیے میں پہلے سے موجود ڈی این اے کی جگہ مصنوعی طریقے سے تیار کردہ ڈی این اے داخل کیا گیا اور خاص بات یہ کہ اس مصنوعی ڈی این اے نے اپنی ہوبہو نقول تیار کرنا شروع کر دیں جو کہ قدرتی ڈی این اے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس سے پہلے مصنوعی ڈی این اے کی ریپلیکیشنReplication (یعنی ہوبہو نقل بنانے) میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
امریکی ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر کریگ وینٹر(Dr Craig Ventor)جنہوں نے یہ کامیاب تجربہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نئے صنعتی انقلاب کی جانب اہم قدم ہے۔ اس طریقہ کار کی کامیابی سے مصنوعی ڈی این اے میں اپنی مرضی کا جینیاتی کوڈ شامل کیا جا سکتا ہے اور پھر اس ڈی این اے کو زندہ خلیوں میں داخل کر کے اپنی مرضی کے نتائج کے حامل جاندار خلیے بالکل قدرتی انداز میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ یا جینیٹک کوڈ (Genetic Code) کسی بھی جاندار کی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جانداروں کی قدرتی و موروثی و جبلتی خصوصیات وغیرہ سب اسی جینیاتی کوڈ میں چھپے ہوتے ہیں اور ڈی این اے اسی مخصوص جینیاتی کوڈ کی وجہ سے ہر جاندار کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تجربے سے مختلف خوردبینی جانداروں مثلاً بیکٹریا وغیرہ کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ ہوا کو مضرِ صحت اجزا سے پاک کرنےاور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجذاب سے لے کر گاڑیوں کیلئے ایندھن کی تیاری تک کا کام لیا جا سکے گا۔
بہرحال یہ سب تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ محض دیوانے کا خواب ہے اور اس طرح کی تحقیق سے ابھی تک کوئی عمومی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مذہبی حلقوں میں حسبِ سابق اس طرح کی تحقیق اور خبروں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور اس طرح کے تجربات کو خدا کی تخلیق میں دخل اندازی گردانا جاتا ہے۔

اس مضمون کے حوالہ جات:
ویلز آنلائن نیوز
arstechnia.com
Read On

بلاگستان میں ہم آہنگی

5 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, May 25, 2010
پہلی نظر میں تو عنوان میں بلاگستان کی جگہ پاکستان نظر آتا ہے کہ مسائل اس میں بھی ہم آہنگی کے ہی پائے جاتے ہیں، یعنی ہم آہنگی نہ ہونے کے۔۔۔۔خیر، موضوع کی جانب آتے ہیں:
کچھ لوگ بلاگ لکھتے وقت ایک خاص ٹون اپناتے ہیں اور ان کے بلاگ کے حرف حرف سے کسی ایک خاص بندے کو نشانہ بنانے کی بُو اس قدر واضح طور پہ آ رہی ہوتی ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر لفظ کو ایک خاص تناظر میں ہی پڑھتے ہیں۔ اظہارِ خیال کا مقصد یہ ضرور ہے کہ آپ اپنے خیال کا اظہار کریں لیکن اگر کسی شخص کی کوئی مخصوص بات آپکو بری لگی ہے تو اس کا اظہار کرنے کے کئی ایک بہتر طریقے موجود ہیں۔ یہاں جو طریقہ رائج ہو رہا ہے اس میں آپ ہر بات ایک خاص انداز سے شروع کرتے ہیں اور اس انداز سے کہ ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکے کہ آپ کس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، یعنی کہ لوگوں کو اصل میں نظریے سے اختلاف نہیں بلکہ کسی ایک شخص کے اس نظریےکو پیش کرنے سے اختلاف ہوتا ہے۔۔۔۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر ایک بات آپکو بری یا غلط معلوم ہوتی ہے تو اپنے تبصرے یا پوسٹ میں اس بات کا ذکر کریں اور اس کی تردید کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔۔۔ چلیں اگر تڑکہ ہی لگانا ہے تو اس انداز میں لگائیں کہ بات میں مزاح یا طنز یا دونوں شامل ہو جائیں لیکن یہ جو "ٹارگٹ کلنگ" والا رویہ ہے یہ تو زیادتی ہے نا!!۔
میٹرک میں ہماری درسی کتاب میں ایک مضمون شامل تھا(ٹھیک سے یاد نہیں شاید سر سید احمد خان کا تھا)۔ اس میں بھی ایسے ہی رویے کا ذکر ہے، جو کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی ان کی رائے سے اختلاف کرے اور خاصی واضح تصویر کشی کی گئی ہے اس طرح کے "ٹاکروں" کی اور اس کا موازنہ کتوں کی لڑائی سے کیا گیا تھا۔۔۔ گو کہ انٹرنیٹ آپ کو براہ راست گتھم گتھا ہونے سے بچا لیتا ہے لیکن منہ سے کف ، آنکھیں لال ، تیوریوں پہ بل، آستین چڑھی ہوئی بہرحال پوسٹوں سے بھی محسوس ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔
جہاں تک باہمی ہم آہنگی کی بات ہے تو جہاں دو آدمی ہوں گے وہاں دو رائے بھی ہو ں گی، اور یہی مختلف خیالات ہی مل کر تو اس دنیا کو مکمل کرتے ہیں۔
ع گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
بلاگنگ کا مقصد اپنے خیالات کو دوسروں تک رسائی دینا ہی ہے لیکن آپ یہاں دوسروں کی جڑیں کاٹ کر اپنے پودے کے چڑھنے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آپ سنییں گے تو ہی کوئی آپکی سنے گا۔ اگر آپ ایک پوسٹ میں کسی ایک مخصوص بات کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ ایک جہت تک محدود ہوتا ہے لیکن جب اس پہ مختلف لوگوں کے تبصرے آتے ہیں جن میں نئی نئی باتیں اور مزید کئی در وا کئے جاتے ہیں تو اصل میں آپ ہی کی ذہنی نشونما ہوتی ہے، اگلی بار جب کوئی نئی پوسٹ سامنے آتی ہے تو اس میں لا شعوری طور پر ان تبصروں سے حاصل کیا گیا کوئی نہ کوئی سبق ضرور شامل ہوتا ہے، یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے، خواہ وہ ایک" مسکراہٹ" کا اضافہ ہی کیوں نہ ہو!
میرے نزدیک یہی وہ باہمی ہم آہنگی ہے جس کی ضرورت ہر اس جگہ ہے جہاں آپ اکیلے نہیں ہیں۔

خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس، لگے نہ ٹھیس ان آبگینوں کو
Read On

نو ٹنکی؛ ایک نیا بلاگ

10 تبصرہ (جات)۔ Thursday, April 22, 2010
یہ بلاگ پوسٹ "9 ٹنکی" جو کہ میرے عزیز دوست کا اردو بلاگ ہے، اس کو متعارف کروانے کی غرض سے چھاپ رہا ہوں۔ یہ وہ پہلا بلاگ ہے جو کسی نے میرے بلاگ کو دیکھتے ہوئے اور متاثر ہو کر بنایا ہے۔ اس کو بنانے میں میں نے حتی الامکان مدد فراہم کی ہے اور آج اس بلاگ کی پہلوٹھی کی پوسٹ شایع ہوئی ہے۔ گو کہ میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں میں ایک بلاگر کے طور پر زیادہ معروف نہیں ہوں اور شاید ہی کوئی میری پوسٹیں پڑھتا ہو گا :( اس کی بڑی وجہ اردو بلکہ کمپیوٹر پر اردو سے نا آشنائی ہے۔ دوسری وجہ ہماری تعلیم کچھ اس طرح کی ہے جو ادبی لگاؤ کم ہی پیدا ہونے دیتی ہے۔ ویسے یہ بات زیادہ درست نہیں ہے کیونکہ اور تو اور ہمارا < سِی آر > بھی ایک شاعر صفت انسان ہے۔ ؛)
چلو اب اس بہانے ثاقب تو میری پوسٹیں پڑھ ہی لیا کرے گا ورنہ اس کی پوسٹیں کون پڑھے گا۔۔! اور جہاں تک بقول ثاقب کے ’و‘ کی بات ہے تو اسکو اب ہم دونوں ہی ’زبردستی‘ اپنے بلاگ پڑھوایا کریں گے۔۔۔۔۔
کل منظرنامہ پر خرم ابنِ شبیر صاحب کا تعارفی انٹرویو پڑھا تھا جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اردو میں بلاگز کی تعداد بڑھانے کا وقت ہے، معیار خود بخود بڑھ جائے گا، مین ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بلاگنگ خصوصاً اردو بلاگنگ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کیلئے صحتمندانہ ذرائع استعمال کریں۔ بلاگنگ سے پڑھنے، لکھنے اور تبصرہ کرنے والوں میں سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں اور وہ اپنے خیالات کے منفی و مثبت پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ تنقید برداشت کرنا اور اس کے مثبت رخ کو سمجھنے کی کوشش کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ بلاگنگ میں ضروری نہیں کہ ادبی موضوعات یا شاعری کا ہی انتخاب کیا جائے بلکہ جو بھی آپ کا شعبہ ہے اس کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ اس سے آپ کو اپنی بات بہتر اور پر کشش انداز میں دوسروں تک پہنچانے کا سبق ملتا ہے۔
آخر میں تمام پڑھنے، سننے اور دیکھنے والوں سے درخواست کروں گا کہ وہ نئے بلاگرز کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔ شکریہ :)
Read On

پہلا پہلا واقعہ

10 تبصرہ (جات)۔
ہمیشہ کی طرح میرے ذہن میں اس وقت کوئی تحریر جنم لیتی ہے جب میں کسی بلاگ پر جا کر تبصرہ کرتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس کو ذرا اور بہتر کر کے اپنے بلاگ پہ ہی پوسٹ دوں تو مزید لوگ مستفید ہو جائیں گے اور بلاگ بھی ہرا بھرا رہے گا۔۔۔
تو یہ قصہ ہے اس زمانے کا جب میں ایف ایس سی سے فارغ ہوا تھا (یعنی کہ صرف تین سال پرانا) اور اسلام آباد میں یونیورسٹی داخلے کیلئے <این او سی> چاہیئے تھا۔ چونکہ مجھے جی سی یو چھوڑے کچھ ماہ ہو چکے تھے اس لئے میں اپنے ہاسٹل سے بھی فارغ ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں صبح سویرے لاہور روانہ ہوا ۔ جمعہ المبارک کا دن تھا۔ لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے دفتر پہنچا۔ میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ صبح جا کر دفتر میں فارم پُر کر کے جمع کروا دینا اور تین چار گھنٹوں بعد آکر سرٹیفیکیٹ لے لینا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور فارم پُر کرکے جمع کروا دیا۔ کلرک نے کہا کہ فلاں بجے آکر لے لینا (مجھے ٹائم ٹھیک سے یاد نہیں)۔ میں وقتِ مقررہ پر آ گیا اور دفتر میں موجود ایک قدرے نوجوان کلرک سے اپنے سرٹیفیکیٹ کی بابت پوچھا۔ وہ صاحب بولے کہ اب تو دفتر کا وقت ختم ہو رہا ہے آپ کو سرٹیفیکیٹ دو دن بعد ہی ملے گا (کیونکہ اگلے روز ہفتہ تھا اور غالباً کوئی عام تعطیل تھی)۔ میں ایک دم پریشان ہو گیا کیونکہ میں دو دن وہاں رُک نہیں سکتا تھا اور سوموار کو میں نے اسلام آباد سرٹیفیکیٹ جمع کروانے جانا تھا۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ مجھے یہی وقت دیا تھا اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں مل سکتا۔ وہ بولا کہ جن سرٹیفیکیٹس پر دستخط ہونے تھے ان پر پہلے ہی ہو چکے ہیں، اب مزید نہیں ہونگے کیونکہ دفتری اوقات ختم ہونے والے ہیں۔ میں نے اپنی مجبوری بیان کی کہ میں یہاں رک نہیں سکتا اور لالہ موسیٰ سے آیا ہوں۔ وہ بولا کہ آپ ایسا کریں کہ تین سو روپے دیں اور تین گھنٹوں بعد آ کر سند لے جائیں۔۔۔۔ میں نے کچھ سمجھی اور کچھ نا سمجھی کی کیفیت میں کہا کہ جو تین سو روپے فیس ہے اس سرٹیفیکیٹ کی، اس کا بینک چالان فارم میں نے لگایا ہے فارم کے ساتھ(اور پورا گھنٹا لائن میں لگ کے جمع کروائی ہے فیس!)۔ ۔۔۔بولا یہ نہیں اس کے علاوہ تین سو روپے مجھے دیں تو میں 3 گھنٹے بعد سند لا دوں گا۔۔۔۔
میں حیران پریشان کمرے سے باہر آیا اور سوچنے لگا کہ کیا اس شخص نے ابھی ابھی مجھ سے رشوت مانگی ہے۔۔۔۔! کیا رشوت ایسے مانگی جاتی ہے؟۔۔۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ ڈھکے چھپے انداز میں مانگتے ہوں گے اور کیا اس طرح تعلیمی اداروں میں براہ راست ایک سٹوڈنٹ سے۔۔۔۔۔!
مجھے واقعی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے اپنے دوست کو فون کیا ور ماجرا بیان کیا۔ وہ بولا کہ یار ! مجھے تو آسانی سے مل گیا تھا۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کو کال کی اور پتا نہیں کیوں مجھے اپنی آواز میں نمی محسوس ہوئی (پتا نہیں میں اتنا اووَر رِی ایکٹ کیوں کر رہا تھا۔۔)۔۔۔۔ بھائی نے کہا کہ دوبارہ جا کر بات کرو۔
میں نے دل میں کیا دعا مانگی اور کیا الفاط دل سے نکلے یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن جب میں دوبارہ دفتر میں گیا تو وہاں اس ڈیسک پر اس لڑکے کی جگہ کوئی اور کلرک موجود تھا۔ میں نے دوبارہ سے اپنی درخواست دہرائی تو اس کلرک نے میری جانب دیکھا اور پوچھا کہ کب دے کر گئے تھے اپنا درخواست فارم؟ میں نے وقت بتایا تو اس نے ایک بڑی سی فائل میرے سامنے رکھی اور کہا کہ اس میں سے اپنا سرٹیفیکیٹ نکال لو اور یہاں دستخط کر دو۔۔۔۔۔!
مین ایک دفعہ پھر حیران تھا لیکن اب کے میں پریشان نہیں تھا۔۔۔۔
یہ زندگی کا پہلا براہ راست واقعہ ہے اس سلسلے کا۔۔۔۔ مزید بھی لکھوں گا پھر کبھی۔۔۔
Read On

اصل وجہ؛ مولوی یا جہالت

23 تبصرہ (جات)۔ Monday, April 12, 2010
آج نوجوانوں کی اکثریت اگر دینی حلقوں کے مکمل خلاف نہیں تو کم از کم بیزار ضرور ہے اور اس کی بڑی وجہ جہالت ہے۔ مولوی اصل مسئلہ نہیں ہیں اصل مسئلہ جہالت ہے، خواہ وہ کسی بھی طبقے میں ہو.۔مولوی طبقہ زیادہ بدنام اسلئےہے کہ وہ اپنے جائز و نا جائز تبصروں، ذاتی چپقلشوں اور دشمنیوں ، سیاست یا باقی تمام معاملات میں دین کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ ہمارے چاروں طرف یہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس جو بھی علم ہے اس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرو،تو پھر ہم میں سے ہی نکلنے والے مولوی ہم سے مختلف کیونکر ہوں گے؟ میں علما کی بات نہیں کر رہا۔ جو نیم ملا ہو گا وہی خطرہ ایمان ہو گا۔ جب لوگ ہی وہ آتے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس "ہتھیار" سے تو بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ اور اس جہالت کو فروغ دینے والے کون لوگ ہیں،۔۔۔۔ہم!
ان لوگوں کو دین کی اجارہ داری کس نے سونپی ہے، ہم نے۔۔۔ اپنے آپ کو دین کی الجھن سے آزاد کرنے کیلئے، جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے۔۔۔ ۔اگر محلے کی مسجد میں کوئی سچ بولنے والا واعظ آ جائے غلطی سے تو ’ مسجد کمیٹی‘ کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے(اور یہ کمیٹیاں جن حضرات پہ مشتمل ہوتی ہیں آپ جانتے ہی ہوں گے!) اور ان حضرت کو ان کے علم سمیت نکال باہر کیا جاتا ہے کہ صاحب اگر مسجد کو چندہ دینے والے حضرات کا مال ہی سودی ثابت کر دیا تو کاروبار کیسے چلے گا مسجد کا!
اور جب وہ حضرت یہ حال دیکھتے ہیں اور تین چار جگہوں سے اسی طرح نکالے جاتے ہیں تو اگلی دفعہ خاص احتیاط کرتے ہیں کیونکہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں، اور بد قسمتی سے سب کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے، عوام اور انتظامیہ کی طرح، لہٰذا مہینے کے چار جمعوں کے چار خطبے، عیدین اور رمضان کے خصوصی خطبات اور اس کے علاوہ کمیٹی کی خصوصی فرمائش پر فلاں فلاں مسجد کے مولویوں اور انتظامیہ کے خلاف ’ قرآن و سنت‘ کی روشنی میں اسلام کے دروازے بند کر نا، یہی ان کا فرضِ منصبی قرار پاتا ہے۔ جس سے محلے میں ان کے علم کی دھوم مچ جاتی ہے۔۔۔ عوام خوش، انتظامیہ خوش، مولوی خوش!!
جائزہ لیں اور سوچیں کہ کتنے لوگ ہیں ایسے جو اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینے کے بارے میں سوچتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہوتی ہے کہ گھر میں کھانے کو ہوتا نہیں ہے، کمانے والا سب کچھ "لُٹا" کر گھر آتا ہے۔۔۔ چلو جی چھوٹے کو مدرسے میں ڈال دو، خود بھی آرام سے کھائے گا اور ہمارے لئے بھی مانگ لائے گا دال روٹی!
یا پھر، ایک بچہ تو ماشا اللہ حساب میں اتنا اچھا ہے کہ وہ تو ابھی سے ہی بینکر بننے کا سوچتا ہے اور دوسرے والا تو جناب ڈاکٹر ہی بنے گا، ماشا اللہ بہت تیز دماغ ہے اس کا۔ ۔۔۔اور اس کا کیا بنے گا، سارہ دن آوارہ پھرتا ہے، روز ہی کسی نہ کسی کا ‘ لانبا’ آتا ہے، سکول میں ڈالا تو تھا لیکن بھاگ جاتا ہے وہاں سے، ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ اسے سکول کی دیوار سے بھی دور رکھو نہیں تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔ہائے! کیا بنے گا اس آوارہ کا؟
میں تو کہتا ہوں اس کو پاس والے گاؤں کے مدرسے میں ڈال دوں، وہیں رہے گا اور چار دن مار کھائے گا مولوی کی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں گھر میں پڑا پڑا روٹیاں تو نہیں توڑے گا نا!
اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ اِن پُٹ آپ کے سامنے ہے اور آؤٹ پُٹ کی امید ایکسٹرا رکھی جاتی ہے۔۔۔
Read On

شعیب اور ثانیہ؛ دامادِ ہندوستان اور بہوٗ پاکستان

8 تبصرہ (جات)۔ Thursday, April 8, 2010
تقریباً ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے کہ میڈیا میں ایک ہی بات کی لسّی بنائی جا رہی ہے اور وہ ہے جناب محترمی و مکرمی شعیب ملک سلّمہ’ کی شادی خانہ آبادی ہمراہ محترمہ آنسہ ثانیہ مرزا سلّمہَا جو کہ 15 اپریل 2010 بروز جمعرات کو ہونا قرار پائی ہے، اس معاملے کو وہ شہرت حاصل ہوئی ہے جو شاید عمران خان اور جمائما کو بھی نہیں ملی تھی۔ اور وجہ صرف اور صرف پاکستانی و بھارتی میڈیا۔۔۔۔۔۔ اس میڈیا وار میں پاکستانی میڈیا نے منہ توڑ جواب دیا ہے بھارتی میڈیا کو، اور ان سے بھی بڑھ کر ڈرامائی رنگ میں پیش کیا اس سارے معاملے کو، لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔
کبھی عایشہ صدیقی کا قصہ تو کبھی سیالی بھگت۔۔۔۔۔ کچھ اس کہانی میں ویسے ہی بڑے ٹوسٹ تھے کہ یہ خود ہی ایک سٹار پلس کے ڈرامے کی طرح آگے بڑھ رہی تھی، باقی کسر میڈیا پہ ہونے والے تبصرے و تجزیے پوری کر رہے تھے جیسے کوئی قومی سلامتی کا مسئلہ زیرِ بحث ہو!. پاکستانی قوم تو خیر ویسے ہی اس معاملے میں شعیب ملک کے ساتھ تھی اور "دل" سے چاہتی ہے کہ ثانیہ مرزا پاکستان کی اجتماعی بہو بن جائے۔ جیسا کہ ایک ایس ایم ایس میں محترمہ ثانیہ مرزا کو بھابھیٗ قوم کا توصیفی خطاب بھی دیا گیا ہے!۔

خبروں کی سرخیاں تو اس حد تک جا چکی تھیں کہ " ابھی ابھی ثانیہ مرزا اپنے گھر کی بالکونی میں موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دیکھی گئی ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی والدہ اور شعیب ملک بھی کمرے سے برآمد ہوئے ہیں اور کسی معاملے پر بات کر رہے ہیں، وہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔ " ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ فوٹیج سب سے پہلے ہم نے اپنے ناظرین تک پہنچائی ہے اور اس پریشانی کی نوعیت کے بارے میں ہم نے بات کرنے کیلئے دعوت دی ہے جناب ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فلاں فلاں خیالی صاحب کو۔۔۔"
"ثانیہ مرزا اپنے کمرے میں خوشی سے جھومتی پائی گئی ہیں"۔۔۔۔۔۔۔ اس حوالے سے ہم نے بات کرنے کیلئے اپنے سٹوڈیوز میں دعوت دی ہے مشہور رقاصہ محترمہ م،ن نرگس صاحبہ کو۔۔۔!"
" شعیب ملک گھر سے نکلتے ہوئے پریشانی میں اپنے بال بنانا بھول گئے"۔۔۔۔ اسوقت ہمارے ساتھ آنلائن موجود ہیں مایا ناز ہیئر سٹائلسٹ جناب فلاں فلاں بوبی۔۔۔۔!
"عایشہ صدیقی نے عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا"۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں ماہرِ قانون فلاں فلاں طلاقی صاحب۔۔۔۔!
اور ابھی تو اس ڈرامے کا ڈراپ سین یعنی شادی خانہ آبادی بھی باقی ہے۔۔۔۔۔ جب ن لیگ کی خواتین "غائبانہ مہندی" کی رسم ادا کر سکتی ہیں توشادی کے بعد کی رسومات کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ شعیب ملک کو ہنی مون منانے کیلئے گلگت بلتستان میں آنے کی دعوت تو دی ہی جا چکی ہے۔۔۔۔۔بس اب گلی گلی میں تہنیتی پیغامات کے بینر اور بورڈ لگانے کی کمی ہے، جو کہ ضرور پوری کی جائے گی کہ یہ تو ہماری قوم کا خصوصی مقابلہ ہوتا ہے کہ دیکھیں کون محلے کی دیواریں زیادہ رنگین کرواتا ہے۔۔۔۔!


Read On

موبائل فون سروس اور پاکستان

5 تبصرہ (جات)۔ Thursday, March 11, 2010
خبر ہے کہ سرحد اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی ہے کہ تمام ایس ایم ایس اور "لیٹ نائٹ" کال پیکجز ختم کئے جائیں۔
دیکھا جائے تو یہ قوم کے انسانی و نسوانی و جوانی حقوق پر براہِ راست ڈاکہ زنی کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ قوم کے ‘کھل کر بولنے’، ‘سب کہہ دینے’ اور ‘اور سنانے’ کی دل پسند تفریح پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ ہماری افسردہ و پژمردہ قوم کیلئے چند ایک ہی تو تفریحیں رہ گئی ہیں، اب ان پر بھی قدغن لگائے جا رہے ہیں۔ اس بھری دنیا میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر کوئی دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر لگا ہوا ہے، ایک موبائل فون ہی تو دکھ درد کا ساتھی ہے جو ساتھ نبھاتا ہے ہر جگہ!
اور تو اور اب تو موبائل فون ہماری عائلی زندگی میں بھی ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے زمانے میں آسمانوں پر بنے ہوئے رشتے ڈھونڈنے کا جو کام محلے کی خالائیں، آپائیں اور بُوائیں کیا کرتی تھیں، اب وہی کام با آسانی ایس ایم ایس سروس کر سکتی ہے۔ اور رہی بات لیٹ نائٹ کال پیکجز کی، یہ تو ‘انڈر اسٹینڈنگ’ پیدا کرنے کا ایک ایسا آسان طریقہ ہے جو ہماری مشرقی روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایجاد کیا گیا ہے کہ بغیر دیکھے اور بغیر ملے ہی آپ کو سب کچھ پتا چل جاتا ہے..!!.
اب ذرا بات ہو جائے موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی، تو جناب یہ تو ان کا فرضِ عین ہے کہ قوم کو وہ وہ سہولیات بھی فراہم کی جائیں جنکی انہیں ضرورت نہیں ہے(لیکن ظاہر ہے کبھی بھی مستقبل قریب میں پڑ سکتی ہے)!۔
پہلے پہل تو جب آپ کال سینٹر کا نمبر ملاتے تھے تو ایک جذبات سے عاری مشینی آواز آپ کو ہدایات دیتی تھی لیکن اب تو بھائی اس میں بھی حتی الامکان جذباتیت بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، انسانوں کو مشینوں کے ذریعے ‘سیٹسفائی’ کرنے کا جو کام مغرب میں عام ہے، اب یہاں بھی فی الحال آواز کی شکل میں دستیاب ہے۔ نہیں یقین تو ذرا ٹیلی نار کی ہیلپ لائن 345 ڈائل کیجئے۔ پہلے آواز آیا کرتی تھی کہ یہ کرنے کیلئے وہ دبائیں، وہ کرنے کیلئے یہ دبائیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب خاصی جذباتی سی دوشیزگی بھری آواز میں یہ کہا جاتا ہے کہ:
’’ مجھ سے یہ کروانے کیلئے وہ دبائیں! ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے وہ کروانے کیلئے یہ دبائیں! ۔۔۔۔یا اور کوئی سہولت حاصل کرنے کیلئے بس کان میں بتا دیں!!!۔۔۔‘‘
اب یقیناً باقی سروسز کی طرف سے اس ‘‘خصوصی پیکج’’ کو کاٹنے کیلئے آنے والے اقدامات کا انتظار رہے گا اور امید بھی کچھ زیادہ کی ہے!!!۔



Read On