متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

خبر؛ جینیاتی سائینس میں ایک اور قدم

آجکل سائینس اور ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی اب خاصا مشکل ہے کیونکہ کچھ شعبوں کے بارے میں تو ہم نے سنا ہوتا ہے کہ جی یہ بھی کوئی سائینس ہوتی ہے لیکن کچھ کا تو نام ہی پہلی پہلی بار سننے کو ملتا ہے۔ آجکل جینیات یا جینیٹکس Genetics میں نئی نئی دریافتیں سننے کو مل رہی ہیں جیسے کہ کچھ دن پہلے ہی ایک دوست سے سنا کہ جینیاتی سائینسدانوں نے جاندار خلیوں میں مصنوعی ڈی این اے شامل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یعنی کہ ایک خلیے میں پہلے سے موجود ڈی این اے کی جگہ مصنوعی طریقے سے تیار کردہ ڈی این اے داخل کیا گیا اور خاص بات یہ کہ اس مصنوعی ڈی این اے نے اپنی ہوبہو نقول تیار کرنا شروع کر دیں جو کہ قدرتی ڈی این اے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس سے پہلے مصنوعی ڈی این اے کی ریپلیکیشنReplication (یعنی ہوبہو نقل بنانے) میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
امریکی ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر کریگ وینٹر(Dr Craig Ventor)جنہوں نے یہ کامیاب تجربہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نئے صنعتی انقلاب کی جانب اہم قدم ہے۔ اس طریقہ کار کی کامیابی سے مصنوعی ڈی این اے میں اپنی مرضی کا جینیاتی کوڈ شامل کیا جا سکتا ہے اور پھر اس ڈی این اے کو زندہ خلیوں میں داخل کر کے اپنی مرضی کے نتائج کے حامل جاندار خلیے بالکل قدرتی انداز میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ یا جینیٹک کوڈ (Genetic Code) کسی بھی جاندار کی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جانداروں کی قدرتی و موروثی و جبلتی خصوصیات وغیرہ سب اسی جینیاتی کوڈ میں چھپے ہوتے ہیں اور ڈی این اے اسی مخصوص جینیاتی کوڈ کی وجہ سے ہر جاندار کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تجربے سے مختلف خوردبینی جانداروں مثلاً بیکٹریا وغیرہ کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ ہوا کو مضرِ صحت اجزا سے پاک کرنےاور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجذاب سے لے کر گاڑیوں کیلئے ایندھن کی تیاری تک کا کام لیا جا سکے گا۔
بہرحال یہ سب تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ محض دیوانے کا خواب ہے اور اس طرح کی تحقیق سے ابھی تک کوئی عمومی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مذہبی حلقوں میں حسبِ سابق اس طرح کی تحقیق اور خبروں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور اس طرح کے تجربات کو خدا کی تخلیق میں دخل اندازی گردانا جاتا ہے۔

اس مضمون کے حوالہ جات:
ویلز آنلائن نیوز
arstechnia.com
Share/Bookmark

0 تبصرہ (جات)۔:

Post a Comment

بلاگ پر آنے کا شکریہ۔اس تحریر پر تبصرہ کرکے آپ بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچائیں۔

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز) میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے (سفید) میں کاپی پیسٹ کر دیں۔ اردو ٹائپنگ کیلئے آپ نیچے دیئے گئے On Screen کی بورڈ سے مدد لے سکتے ہیں۔۔