متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

صرف ایک خوراک جوان بنائے، "گھوڑے" کیطرح؟

9 تبصرہ (جات)۔ Friday, May 28, 2010
آپ نے اخباروں، رسالوں، کیبل کے چینلوں اور سڑکوں کے دائیں بائیں دیواروں پر اکثر اشتہار دیکھے ہوں گے جن میں قبلہ حکیم بڑے صاحب یا مولوی صاحب ڈلےّ والے یا ’مشہورِ زنانہ‘ عامل ناگی کالیا بنگالی وغیرہ ، اعصابی کمزوری یا مردانہ امراضِ خصوصی کے"تسلی بخش علاج" کی یقین دہانی اس جملے سے کراتے ہیں کہ ہماری فلاں دوا یا معجون یا طلا استعمال کرنے سے "مرد بالکل گھوڑے کیطرح جوان ہو جائے گا"۔۔۔۔۔۔ تو صاحبو! اگر خدانخواستہ کبھی کسی کو اس طرح کا کوئی معجون کھانا پڑ جائے تو استعمال سے پہلے قبلہ بہت بڑے حکیم صاحب سے یہ ضرور پوچھ لیجئے گا کہ یہ " گھوڑے" سے ان کی مراد کون سا گھوڑا ہے۔۔۔۔ خشکی والا یا سمندری!
یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ مردانہ کمیونٹی کیلئے بہت اہم ہے اور Worth asking ہے۔ اسکی وجہ سمندری گھوڑے کے بارے میں درج ذیل معلومات ہیں، جو کہ دلچسپ بھی ہیں اور عجیب بھی۔
ہوا کچھ یوں کہ کل ایک فلم میں سمندری گھوڑے کا حوالہ دیا گیا تو میں نے فوراً Sea Horse لکھ کر گوگل کیا۔ زیادہ تر معلومات وکیپیڈیا سے ہی پڑھی ہیں، اس کے علاوہ نیشنل جیوگرافک کی سائٹ بھی وزٹ کی تھی۔ سمندری گھوڑا جسے انگریزی میں Sea Horse کہتے ہیں دنیا میں پایا جانے والا واحد جانور ہے جس میں نر بچے پیدا کرتا ہے۔
سمندری گھوڑا (لاہور چڑیا گھر میں جو بڑا سا، بھدا سا جانور ہے وہ دریائی گھوڑا ہے، اس کے بارے میں یہاں دیکھیں) دراصل مچھلی کی ایک قسم ہے اور اس کا تعلق ہیپو کیمپوس Hippocampus جینس سے ہے۔جینس، فیملی اور اس طرح کی دوسری حیاتیاتی صف بندی کے بارے میں بڑی مشکل مشکل سی انگریزی اصطلاحات لکھی ہوئی ہیں ، وہ آپ اس ربط سے پڑھ سکتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں بنیادی معلومات کچھ اس طرح ہیں:
سمندری گھوڑا ’پائپ فش‘ کے خاندان سے ہے، ان کے جسم پر سکیلز یا چھلکے نہیں ہوتے۔ ان کی جلد پتلی اور جسم کا ڈھانچہ رِنگز Rings یا چھلہ نما ہڈیوں سے بنا ہوتا ہے ۔سمندری گھوڑے کی تقریباً تیس اقسام ہوتی ہیں اور یہ ٹراپیکل اور درمیانے درجہ حرارت کے پانیوں میں پایا جاتا ہے۔ سمندری گھوڑے انتہائی سست تیراک ہوتے ہیں اور سمندر کی تہہ میں موجود سمندری گھاس اور چٹانوں (کورل وغیرہ) میں رہتے ہیں اور چھوٹے جاندار اور ننھے منےجھینگے(Shrimps) وغیرہ کھاتے ہیں۔ ان کی پیمائش یا سائز ڈھائی سینٹی میٹر سے لے کر تقریباً ایک فٹ تک ہوسکتا ہے۔ سمندری گھوڑا یعنی نَر ذرا "گھریلو" قسم کا واقع ہوا ہے اور اپنے علاقے سے زیادہ دور نہیں جاتا جبکہ مادہ یعنی سمندری گھوڑی بے لگام ہوتی ہے، اور "مرد" کے مقابلے میں تقریباً سو گُنا ریادہ رقبے میں گھومتی پھرتی ہے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افزائشِ نسل کیلئے ایک ہی "بندے" پہ اکتفا کرتے ہیں۔ یعنی مونو گیمس (Monogamous) ہوتے ہیں اور ایک افزائشی موسم (یا باری) کیلئے جوڑا بنا کر رہتے ہیں۔ سمندری حیات خصوصاً مچھلیوں میں مادہ انڈے دیتی ہے اور نر سپرم(مادہ منویہ) کے اخراج سے ان کو فرٹیلائز کرتا ہے اور اس کے بعد یہ انڈے ماحول کے رحم و کرم پہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ لیکن سمندری گھوڑوں میں کچھ الٹ قسم کا معاملہ ہوتا ہے اور ما دہ جب انڈے دینے کے قابل ہو جاتی ہے تو وہ یہ انڈے ایک نلی نما ‘چیز’ اووی پوزیٹر Ovipositor کے ذریعے نر کے جسم کی اگلی جانب موجود ایک تھیلی یا Brood Pouch میں ڈال دیتی ہے۔ یہ انڈے جن کی تعداد 100 سے 200 تک ہو سکتی ہے (اوسطاً)، اسی تھیلی میں خودبخود فرٹیلائز ہو جاتے ہیں اور نر کے جسم سے ہی ان کو خوراک یا پرولیکٹن(Prolactin) ملتی ہے، پرولیکٹن وہ ہارمون Harmone ہے جو ممالیہ جانداروں میں دودھ پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس طرح" مردانہ حمل" کا یہ عمل جسے Gestationبھی کہا جاتا ہے، نر کے جسم میں ہی ہوتا ہے اور دو سے چھے ہفتوں کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔اس دوران سمندری گھوڑی وقتاً فوقتاً گھوڑے کو "وزٹ" کرتی رہتی ہے۔ سمندری گھوڑا اعصابی سکڑاؤ (Muscular Contractions) کے عمل سے ان بچوں کو تھیلی سے باہر نکال دیتا ہے۔ پیدائش کے بعد یہ بچے سمندر کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ اور گھوڑی اگلی باری کیلیے "پھر سے جوان" ہو جاتی ہے اور گھوڑا اس باری کا بار اٹھانے کیلیے تیار ہو جاتا ہے۔

(پوسٹ کا بنیادی مقصد معلوماتی ہے، تھوڑا بہت مزاحیہ پیرائے میں "ازراہِ مزاح" ہی لکھا گیا ہے۔ D:)
Read On

خبر؛ جینیاتی سائینس میں ایک اور قدم

0 تبصرہ (جات)۔ Thursday, May 27, 2010
آجکل سائینس اور ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی اب خاصا مشکل ہے کیونکہ کچھ شعبوں کے بارے میں تو ہم نے سنا ہوتا ہے کہ جی یہ بھی کوئی سائینس ہوتی ہے لیکن کچھ کا تو نام ہی پہلی پہلی بار سننے کو ملتا ہے۔ آجکل جینیات یا جینیٹکس Genetics میں نئی نئی دریافتیں سننے کو مل رہی ہیں جیسے کہ کچھ دن پہلے ہی ایک دوست سے سنا کہ جینیاتی سائینسدانوں نے جاندار خلیوں میں مصنوعی ڈی این اے شامل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یعنی کہ ایک خلیے میں پہلے سے موجود ڈی این اے کی جگہ مصنوعی طریقے سے تیار کردہ ڈی این اے داخل کیا گیا اور خاص بات یہ کہ اس مصنوعی ڈی این اے نے اپنی ہوبہو نقول تیار کرنا شروع کر دیں جو کہ قدرتی ڈی این اے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس سے پہلے مصنوعی ڈی این اے کی ریپلیکیشنReplication (یعنی ہوبہو نقل بنانے) میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
امریکی ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر کریگ وینٹر(Dr Craig Ventor)جنہوں نے یہ کامیاب تجربہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نئے صنعتی انقلاب کی جانب اہم قدم ہے۔ اس طریقہ کار کی کامیابی سے مصنوعی ڈی این اے میں اپنی مرضی کا جینیاتی کوڈ شامل کیا جا سکتا ہے اور پھر اس ڈی این اے کو زندہ خلیوں میں داخل کر کے اپنی مرضی کے نتائج کے حامل جاندار خلیے بالکل قدرتی انداز میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ جینیاتی کوڈ یا جینیٹک کوڈ (Genetic Code) کسی بھی جاندار کی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جانداروں کی قدرتی و موروثی و جبلتی خصوصیات وغیرہ سب اسی جینیاتی کوڈ میں چھپے ہوتے ہیں اور ڈی این اے اسی مخصوص جینیاتی کوڈ کی وجہ سے ہر جاندار کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تجربے سے مختلف خوردبینی جانداروں مثلاً بیکٹریا وغیرہ کو جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ ہوا کو مضرِ صحت اجزا سے پاک کرنےاور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے انجذاب سے لے کر گاڑیوں کیلئے ایندھن کی تیاری تک کا کام لیا جا سکے گا۔
بہرحال یہ سب تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ محض دیوانے کا خواب ہے اور اس طرح کی تحقیق سے ابھی تک کوئی عمومی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مذہبی حلقوں میں حسبِ سابق اس طرح کی تحقیق اور خبروں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور اس طرح کے تجربات کو خدا کی تخلیق میں دخل اندازی گردانا جاتا ہے۔

اس مضمون کے حوالہ جات:
ویلز آنلائن نیوز
arstechnia.com
Read On

بلاگستان میں ہم آہنگی

5 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, May 25, 2010
پہلی نظر میں تو عنوان میں بلاگستان کی جگہ پاکستان نظر آتا ہے کہ مسائل اس میں بھی ہم آہنگی کے ہی پائے جاتے ہیں، یعنی ہم آہنگی نہ ہونے کے۔۔۔۔خیر، موضوع کی جانب آتے ہیں:
کچھ لوگ بلاگ لکھتے وقت ایک خاص ٹون اپناتے ہیں اور ان کے بلاگ کے حرف حرف سے کسی ایک خاص بندے کو نشانہ بنانے کی بُو اس قدر واضح طور پہ آ رہی ہوتی ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر لفظ کو ایک خاص تناظر میں ہی پڑھتے ہیں۔ اظہارِ خیال کا مقصد یہ ضرور ہے کہ آپ اپنے خیال کا اظہار کریں لیکن اگر کسی شخص کی کوئی مخصوص بات آپکو بری لگی ہے تو اس کا اظہار کرنے کے کئی ایک بہتر طریقے موجود ہیں۔ یہاں جو طریقہ رائج ہو رہا ہے اس میں آپ ہر بات ایک خاص انداز سے شروع کرتے ہیں اور اس انداز سے کہ ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکے کہ آپ کس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، یعنی کہ لوگوں کو اصل میں نظریے سے اختلاف نہیں بلکہ کسی ایک شخص کے اس نظریےکو پیش کرنے سے اختلاف ہوتا ہے۔۔۔۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر ایک بات آپکو بری یا غلط معلوم ہوتی ہے تو اپنے تبصرے یا پوسٹ میں اس بات کا ذکر کریں اور اس کی تردید کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔۔۔ چلیں اگر تڑکہ ہی لگانا ہے تو اس انداز میں لگائیں کہ بات میں مزاح یا طنز یا دونوں شامل ہو جائیں لیکن یہ جو "ٹارگٹ کلنگ" والا رویہ ہے یہ تو زیادتی ہے نا!!۔
میٹرک میں ہماری درسی کتاب میں ایک مضمون شامل تھا(ٹھیک سے یاد نہیں شاید سر سید احمد خان کا تھا)۔ اس میں بھی ایسے ہی رویے کا ذکر ہے، جو کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی ان کی رائے سے اختلاف کرے اور خاصی واضح تصویر کشی کی گئی ہے اس طرح کے "ٹاکروں" کی اور اس کا موازنہ کتوں کی لڑائی سے کیا گیا تھا۔۔۔ گو کہ انٹرنیٹ آپ کو براہ راست گتھم گتھا ہونے سے بچا لیتا ہے لیکن منہ سے کف ، آنکھیں لال ، تیوریوں پہ بل، آستین چڑھی ہوئی بہرحال پوسٹوں سے بھی محسوس ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔
جہاں تک باہمی ہم آہنگی کی بات ہے تو جہاں دو آدمی ہوں گے وہاں دو رائے بھی ہو ں گی، اور یہی مختلف خیالات ہی مل کر تو اس دنیا کو مکمل کرتے ہیں۔
ع گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
بلاگنگ کا مقصد اپنے خیالات کو دوسروں تک رسائی دینا ہی ہے لیکن آپ یہاں دوسروں کی جڑیں کاٹ کر اپنے پودے کے چڑھنے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آپ سنییں گے تو ہی کوئی آپکی سنے گا۔ اگر آپ ایک پوسٹ میں کسی ایک مخصوص بات کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ ایک جہت تک محدود ہوتا ہے لیکن جب اس پہ مختلف لوگوں کے تبصرے آتے ہیں جن میں نئی نئی باتیں اور مزید کئی در وا کئے جاتے ہیں تو اصل میں آپ ہی کی ذہنی نشونما ہوتی ہے، اگلی بار جب کوئی نئی پوسٹ سامنے آتی ہے تو اس میں لا شعوری طور پر ان تبصروں سے حاصل کیا گیا کوئی نہ کوئی سبق ضرور شامل ہوتا ہے، یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے، خواہ وہ ایک" مسکراہٹ" کا اضافہ ہی کیوں نہ ہو!
میرے نزدیک یہی وہ باہمی ہم آہنگی ہے جس کی ضرورت ہر اس جگہ ہے جہاں آپ اکیلے نہیں ہیں۔

خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس، لگے نہ ٹھیس ان آبگینوں کو
Read On