متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

اصل وجہ؛ مولوی یا جہالت

آج نوجوانوں کی اکثریت اگر دینی حلقوں کے مکمل خلاف نہیں تو کم از کم بیزار ضرور ہے اور اس کی بڑی وجہ جہالت ہے۔ مولوی اصل مسئلہ نہیں ہیں اصل مسئلہ جہالت ہے، خواہ وہ کسی بھی طبقے میں ہو.۔مولوی طبقہ زیادہ بدنام اسلئےہے کہ وہ اپنے جائز و نا جائز تبصروں، ذاتی چپقلشوں اور دشمنیوں ، سیاست یا باقی تمام معاملات میں دین کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ ہمارے چاروں طرف یہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس جو بھی علم ہے اس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرو،تو پھر ہم میں سے ہی نکلنے والے مولوی ہم سے مختلف کیونکر ہوں گے؟ میں علما کی بات نہیں کر رہا۔ جو نیم ملا ہو گا وہی خطرہ ایمان ہو گا۔ جب لوگ ہی وہ آتے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس "ہتھیار" سے تو بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ اور اس جہالت کو فروغ دینے والے کون لوگ ہیں،۔۔۔۔ہم!
ان لوگوں کو دین کی اجارہ داری کس نے سونپی ہے، ہم نے۔۔۔ اپنے آپ کو دین کی الجھن سے آزاد کرنے کیلئے، جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے۔۔۔ ۔اگر محلے کی مسجد میں کوئی سچ بولنے والا واعظ آ جائے غلطی سے تو ’ مسجد کمیٹی‘ کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے(اور یہ کمیٹیاں جن حضرات پہ مشتمل ہوتی ہیں آپ جانتے ہی ہوں گے!) اور ان حضرت کو ان کے علم سمیت نکال باہر کیا جاتا ہے کہ صاحب اگر مسجد کو چندہ دینے والے حضرات کا مال ہی سودی ثابت کر دیا تو کاروبار کیسے چلے گا مسجد کا!
اور جب وہ حضرت یہ حال دیکھتے ہیں اور تین چار جگہوں سے اسی طرح نکالے جاتے ہیں تو اگلی دفعہ خاص احتیاط کرتے ہیں کیونکہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں، اور بد قسمتی سے سب کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے، عوام اور انتظامیہ کی طرح، لہٰذا مہینے کے چار جمعوں کے چار خطبے، عیدین اور رمضان کے خصوصی خطبات اور اس کے علاوہ کمیٹی کی خصوصی فرمائش پر فلاں فلاں مسجد کے مولویوں اور انتظامیہ کے خلاف ’ قرآن و سنت‘ کی روشنی میں اسلام کے دروازے بند کر نا، یہی ان کا فرضِ منصبی قرار پاتا ہے۔ جس سے محلے میں ان کے علم کی دھوم مچ جاتی ہے۔۔۔ عوام خوش، انتظامیہ خوش، مولوی خوش!!
جائزہ لیں اور سوچیں کہ کتنے لوگ ہیں ایسے جو اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینے کے بارے میں سوچتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہوتی ہے کہ گھر میں کھانے کو ہوتا نہیں ہے، کمانے والا سب کچھ "لُٹا" کر گھر آتا ہے۔۔۔ چلو جی چھوٹے کو مدرسے میں ڈال دو، خود بھی آرام سے کھائے گا اور ہمارے لئے بھی مانگ لائے گا دال روٹی!
یا پھر، ایک بچہ تو ماشا اللہ حساب میں اتنا اچھا ہے کہ وہ تو ابھی سے ہی بینکر بننے کا سوچتا ہے اور دوسرے والا تو جناب ڈاکٹر ہی بنے گا، ماشا اللہ بہت تیز دماغ ہے اس کا۔ ۔۔۔اور اس کا کیا بنے گا، سارہ دن آوارہ پھرتا ہے، روز ہی کسی نہ کسی کا ‘ لانبا’ آتا ہے، سکول میں ڈالا تو تھا لیکن بھاگ جاتا ہے وہاں سے، ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ اسے سکول کی دیوار سے بھی دور رکھو نہیں تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔ہائے! کیا بنے گا اس آوارہ کا؟
میں تو کہتا ہوں اس کو پاس والے گاؤں کے مدرسے میں ڈال دوں، وہیں رہے گا اور چار دن مار کھائے گا مولوی کی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں گھر میں پڑا پڑا روٹیاں تو نہیں توڑے گا نا!
اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ اِن پُٹ آپ کے سامنے ہے اور آؤٹ پُٹ کی امید ایکسٹرا رکھی جاتی ہے۔۔۔
Share/Bookmark

23 تبصرہ (جات)۔:

  • اصل وجہ نہ تو جہالت ہے نہ مولوی۔ اصل وجہ حماقت ہے۔ جب سے ہمارا ملک پاکستان بنا ہے۔ ہم مسلسل حماقتیں کرتے آئے ہیں:
    ملک اسلام کے نام پر لیا، قانون سیکولر کر لیا
    قومی زبان اردو رکھی، سرکاری زبان انگریزی کر لی
    سیاسی نظام اسلامی رکھنے کا ڈھونگ رچایا، مغربی پارلیمانی نظام رائج کر لیا
    معیشت و تجارت سود سے آزاد ایمانداری سے کرنے کا وعدہ کیا، ایک سو فیصد سود پر مبنی سینٹرل بینک قائم کر لیا
    اور اور۔۔۔۔ ایسی مزید ہزار مثالیں دے سکتا ہوں جہاں ہماری قوم اور آباؤاجداد دوغلے پن میں چیمپین بنتے آئے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ملک میں غربت ہے، جہالت ہے، مولویت ہے، ملوکیت ہے وغیرہ۔ بھائیو پہلے اپنے دوغلے پن کو تو دور کرو، پھر اپنے مسائل کی بات کرتا! :)

  • “ملک اسلام کے نام پر لیا، قانون سیکولر کر لیا“

    کدھر سيکولر قوانين ہيں بھئي؟ اگر سيکولر ہوتے تو مذہبی قوانين کے نام پہ اتنا ظلم کيوں؟ حدود آرڈيننس سيکولر تھا؟

  • جناب، ہمارا قانون کچھ مذہبی شکوں(قادیانیت،حدود آرڈیننس، نسواں بل وغیرہ) کو چھوڑ کر باقی سارا کا سارا برطانوی سیکولرازم کی بنیار پر رکھا گیا ہے۔ چوری کی سزا کچھ سال، ڈکیتی کی کچھ مزید سال، گو قتل کی سزا پھانسی مگر اکثر یہ بھی عمر قید تک ہی محدود کر دی جاتی ہے ،
    نیز یہاں اصل سوال قانون کی قسم کا نہیں، قانون کی ادائیگی کا ہے۔ ہمارے ہاں قانون ایسا ہے کہ کوئی غریب پولیس والا، امیر شخص کو خود گرفتار نہیں کر سکتا۔ جبتک اعلیٰ عہدیداران سے آرڈر نہ آئے، ورنہ خود اس بیچارے کی نوکری چلی جاتی ہے۔ پولیس کی حیثیت اور طاقت کا یہ عالم ہے کہ مسلح گروہ انکو اٹھوا کر لیجاتے ہیں اور بعد میں تاوان پر چھوڑتے ہیں۔
    اگر محض قانون کی حکومت پر بحث کرنی ہے تو چیف جسٹس جس طرح ملک میں انصاف کیلئے مارا مارا پھرا ہے، اسکو دیکھ کر صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ “عام آدمی“ کو کسی قد ر انصاف ملتا ہوگا!
    باقی بحث بعد میں :)

  • جناب، ہمارا قانون کچھ مذہبی شکوں(قادیانیت،حدود آرڈیننس، نسواں بل وغیرہ) کو چھوڑ کر باقی سارا کا سارا برطانوی سیکولرازم کی بنیار پر رکھا گیا ہے۔ چوری کی سزا کچھ سال، ڈکیتی کی کچھ مزید سال، گو قتل کی سزا پھانسی مگر اکثر یہ بھی عمر قید تک ہی محدود کر دی جاتی ہے ،
    نیز یہاں اصل سوال قانون کی قسم کا نہیں، قانون کی ادائیگی کا ہے۔ ہمارے ہاں قانون ایسا ہے کہ کوئی غریب پولیس والا، امیر شخص کو خود گرفتار نہیں کر سکتا۔ جبتک اعلیٰ عہدیداران سے آرڈر نہ آئے، ورنہ خود اس بیچارے کی نوکری چلی جاتی ہے۔ پولیس کی حیثیت اور طاقت کا یہ عالم ہے کہ مسلح گروہ انکو اٹھوا کر لیجاتے ہیں اور بعد میں تاوان پر چھوڑتے ہیں۔
    اگر محض قانون کی حکومت پر بحث کرنی ہے تو چیف جسٹس جس طرح ملک میں انصاف کیلئے مارا مارا پھرا ہے، اسکو دیکھ کر صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ “عام آدمی“ کو کسی قد ر انصاف ملتا ہوگا!
    باقی بحث بعد میں :)

  • عارف کریم صاحب ، یہ بحث تو کبھ اپنے نتیجے پہ نہیں پہنچی کہ ملک اسلام کے نام پہ لیا بھی تھا یا مسلمان کے نام پہ لیا تھا۔ یہ واضح رہنا چاہئیے کہ قرار داد پاکستان جسے پاکستان کی تخلیق میں ایک اہم سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔ اس میں جن ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت مقصود تھی۔ ان میں پنجاب پورے کا پورا شامل تھا۔ اور تمام ریاستوں کو ملا کر غیر مسلم اقلیت تیس فی صد بنتی ہے۔ ۔ جو کہ حاصل شدہ پاکستان سے مختلف تھی۔ تو کیا اس صورت میں اس وقت کے رہنما یہ سوچ رہے تھے کہ شریعت اسلامی کا نفاذ ہوگا یا وہ مسلمانوں کی مضبوط حکومت چاہتے تھے۔
    خود ان میں سے کسی کا کوئ ایسا بیان نہیں کہ حاصل ہونے والی ملک نیں فلاں فقہہ کی شریعت نافذ ہوگی۔ کم از کم میری نظر سے نہیں گذرا۔
    تو یہ مسئلہ کہ اسلامی نفاذ شریعت مقصود تھا یا حکومتی باگ دوڑ مسلمانوں کے ہاتھوں میں مقصود تھی اسی کے فصلے کہ بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پہ لیا گیا یا مسلمان کے نام پہ۔
    رہا سیکولر قوانین کا نفاذ تو وہ یہاں کبھی نہیں رہے، بلکہ یہاں ہمیشہ مذہب ہی کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہ رجحنا اتنا بڑھایا گیا ہے کہ حالات اب اس مرحلے پہ پہنچ گئے ہیں جہاں کچھ سخت فیصلے کئے بغیر چارہ نہیں۔
    میرے بچپن میں تو حفظ قرآن شاید ہی کہیں کہیں کرایا جاتا تھا۔ لیکن ایک مختصر عرصے میں آہستہ آہستہ ان مراکز کا جال بچھ گیا۔ اب طوطے کی طرح رٹنے والے حفاظ کی ایک لمبی لائن ہے۔ ڈھائ تین سال کے بچے اس محنت سے لگا دئے جاے ہیں۔ اور پھر اگلے پانچ چھ سال وہ یہی کرتے ہیں۔ یعنی رٹ لیتے ہیں۔ اسکی وجہ بیشتر والدین یہ بتاتے ہیں کہ جس خاندان میں ایک حافظ ہوگا اس خاندان کے ستر افراد بخشے جائیں گے۔ معلوم نہیں اس حدیث کی مضبوطی کتنی ہے۔ لیکن کیا یہ اتنی عمر کے بچوں پہ نافذ کرنے کے لئے ہے۔
    عرب اپنے مضبوط حافظے کے لئے مشہور ہیں لیکن کیا رسول اللہ کے زمانے میں اتنے حافظ بچے تھے یا ہم اب اس زمانے سے زیادہ اسلامی ہو گئے ہیں۔ میرے علم میں اس وقت مدینہ یا مکہ میں ایسا کوئ مقام نہیں جہاں اتنے چھوٹے بچوں کو حفظ قرآن کرایا جاتا ہو۔ البتہ مساجد کے ساتھ ان مدرسوں کا بیان ملتا ہے جہاں قرآن پہ تفکر کیا جاتا ہے۔
    تو، یہی منافقت ہے لوگوں کو بغیر کسی پس منظر کے مذہبی تعلیم دینا اور پھر کہنا کہ ہم مذہب پہ عمل نہیں کرتے۔ ہم انہیں جس چیز کی تعلیم دیتے ہیں وہ وہی تو کر رہے ہیں۔

  • تو آپکا خیال ہے کہ اسلامی شریعت نافذ ہونے سے پولیس والا با اثر لوگوں پہ ہاتھ ڈالنے کے قابل ہو جائے گا اور ان قوانین کو نا انصافی کے ساتھ استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ اللہ رے معصومیت۔
    عرب ریاستروں ممیں کافی حد تک ایسے قوانین ہیں جیسے چوری کی سزا ہاتھ کاٹ ڈالنا۔ کیا یہ ممالک مثالی اسلامی کردار رکھتے ہیں؟ کیا انکے باشندے کبھی چوری اور بد اخلاقی نہیں کرتے اور وہ ترقی کے میدان میں سر پٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں؟
    آپ اس بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔

  • السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جزاک اللہ خیر۔ بہت اچھامضمون شیئرکیاہے۔بات ہورہی ہےمولوی یاجہالت کی اورہم قانون کےپیچھےپڑگئےمعذرت کےساتھـ ۔ عنقہ ناز صاحبہ کےمطابق یہ ملک صرف مسلمان حکومت کےلیےلیاگياتوجناب عنیقہ صاحبہ، توپاکستان کامطلب کیالاالہ الااللہ کاکیامطلب تھا؟
    بھائي عین لام میم، آپ نےبہت خوب لکھاکہ ہم اسی بچےکومدرسےمیں حفظ کرواتےہیں یاتووہ معذورہویاسکول سےبھگوڑاہوکہتےہیں کہ یہ حفظ کرکےمولوی بن جاتاہےتوایسےمولوی توپھرایسےہوتےہیں ہمارےہاں جوتیزبچہ ہے وہ ڈاکٹریاانجیئربنتاجب تک ہم ذہین بچوں کواس طرف نہیں لائیں گےتومذہب کایہی حال ہوگا۔

    والسلام
    جاویداقبال

  • آپ نے درست نشان دہی کی ہے مگر عصرِ جديد کے لوگ کم ہی لوگ اسے مانيں گے

    رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں ہزاروں کی تعداد ميں حفاظ نہ ہوتے تو ہم تک درست قرآن پہنچنا بہت مشکل تھا ۔ درست ہے کہ اللہ نے پہنچانا تھا اسی لئے حفاظ بنائے ۔ فی زمانہ حفاظ کا تناسب کُل آبادی سے اُس کی نسبت بہت کم ہے جو رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے وصال کے وقت تھا

    پاکستان بنانے کا مقصد وہ لوگ بتاتے ہيں جن کے والدين بھی شايد پاکستان بننے کے بعد پيدا ہوئے تھے يا پاکستان بننے کے وقت دودھ پيتے بچے تھے اور جھٹلايا اُن کو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان بننے سے پہلے نعرے سُنے اور خود بھی لگائے "پاکستان کا مطلب کيا ۔ لاالہ الااللہ "
    کمال تو يہ ہے کہ قراردادِ مقاصد ميں بھی واضح ہے کہ پاکستان اسلامی سلطنت ہوگی

    On March 12, 1949, the Constituent Assembly adopted a resolution moved by Liaquat Ali Khan, the then Prime Minister of Pakistan. It was called the Objectives Resolution. It proclaimed that the future constitution of Pakistan would not be modeled on European pattern, but on the ideology and democratic faith of Islam.
    The Objectives Resolution, which is considered to be the "Magna Carta" of Pakistan's constitutional history, proclaimed the following principles:
    1. Sovereignty belongs to Allah alone but He has delegated it to the State of Pakistan through its people for being exercised within the limits prescribed by Him as a sacred trust.
    2. The State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people.
    3. The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed.
    4. Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah.
    5. Adequate provision shall be made for the minorities to freely profess and practice their religions and develop their cultures.
    6. Pakistan shall be a federation.
    7. Fundamental rights shall be guaranteed.
    8. Judiciary shall be independent.

  • اسمیں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام اسلامی اصولوں کے مطابق وطن کو چلانا تھا۔ اور اصل تضاد ہی باقی ہندوستانیوں سے یہی رہا کہ وہ لوگ چٹے سیکولر تھے، جبکہ ہم “مختلف“ نظریہ ملوکیت کی بدولت الگ ملک کا مطالبہ کرتے رہے۔ اور آج 62 سال گزر جانے کے بعد المیہ یہ ہے کہ نہ تین میں نہ تیرہ کی صف میں موجود ہیں۔ معاشرہ کئی ہا اقسام کے طبقات، نظریات میں گھرہ نظر آتا ہے۔ اور اتفاق رائے نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر سال اسلام کے نام پر نئی نئی جماعتیں، فرقے، گروہ ظہور میں آرہے ہیں۔ جو آپس میں لڑ لڑ مر رہے ہیں۔ پھر سیاسی نظام میں پارٹی بازی کی وبا ایسی پھیلی ہوئی ہے کہ قوم و ملت کی بہتری کیلئے لڑنے کی بجائے، اپنی سیٹوں کی خاطر جنگ و قتال کرتے پھرتے ہیں-
    تعلیمی نظام کے دوغلے پن کی مثالیں اوپر بھی دی جا چکی ہیں۔ ذہین و ٹیلنٹ والے یا تو ملک سے باہر ہیں، یا مہنگے فرنگی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ غرباء طبقہ زیادہ سے زیادہ اپنے بچوں کو مولویت کی تعلیم دلوا کر مستقبل کے دینی جنگجو پیدا کر رہے ہیں، جنکی باقی زندگی کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں، بلکہ اپنے مسلک کی خدمت بن چکا ہے!

  • میں نے تو سوال کیا ہے کہ کیا اس زمانے میں اتنے چھوٹے بچوں کو حفظ کرایا جاتا تھآ۔ بچوں کو مذہب کی بنیادی تعلیم دینی چاہئیے۔ اور ایک وقت میں جب ان میں کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہیے انہیں یہ انتخاب دینا چاہئیے کہ کیا وہ حفظ قرآن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ کیونکہ اب خاندان کے ستر افراد کی بخشش کروانی ہے تو کسی ایک بچے کو اسکی ذمہ داری دے دی جائے۔ اس زمانے میں پرنٹنگ کی سہولت نہیں تھی اس لئے حفاظ تیار کئے جاتے تھے تاکہ قرآن محفوظ رہے۔ آج تو ایسا کوئ مسئلہ نہیں۔ حفاظ تیار کرنے کے بجائے دینی معیاری عال تیار ہونے چائیں۔ جو عصر حاضر کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دین میں اجتہاد کا راستہ کھلیں۔ محض رٹنے رٹانے سے دین کی کوئ خدمت نہیں ہوتی۔ وہ بھی اتنی چھوٹی عمر میں۔
    قرار دادمقاصد ، قیام پاکستان کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے کیا ہوا یہ اسکی بات ہے۔ قرار داد پاکستان وہ منشور تھا جو کہ عوام میں پاکستان کے قیام کی طرف لیجانے کے لئے بنایا گیا۔ بعد میں جس کی مرضی ہو تاریخ کو جدھر لیجائے۔ اس نعرے کا حوالہ دینا کہ پاکستان کا مطلب کیا۔ یہ سب تو سیاسی نعرے ہیں جو عوام میں انکی علیحدہ شناخت کے حوالے سے بنائَ گئے تاکہ پاکستان کے معاملے پہ مسلمان ہونے کے حوالے سے جذباتی ہوں ورنہ اس میں یہ بات کہاں ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی۔ نہ یہ طے تھا کہ یہاں صرف مسلمان رہیں گے اور نہ یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے والے کو نئے سرے سے تجدید ایمان کرنا ہوگا۔ یہ بات سب کو پتہ تھی کہ یہ ملک مسلمانوں کے لئے بنایا جا رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے یہاں نئے سرے سے مسلمان ہونے کے لئے تو ہجرت نہیں کی تھی۔ اگر محض مسلمان اور اسلام کے لگاءو کی بات ہوتی تو قائد اعظم کو بلوچستان اور پنجاب میں ڈیل نہ کرنی پڑتی۔
    پیپلز پارٹی نے بھی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔
    کراچی ملک کا وہ حصہ ہے جہاں ہجرت کر کے آنیوالے ان مہاجرین کی ایک کثیر تعداد آباد ہے جو قیام پاکستان کی تحریک میں بھی شامل رہے۔ اور کچھ نہیں تو بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کی سوانح حیات پڑھ ڈالیں۔ وہ بھوپال کو نواب کی بیٹی اور ریاست کی ولیعہد تھیں۔ کراچی میں ملیر میں آکر آباد ہوئیں۔ ایک کافی ترقی پسند خاتون جو آجکے اسلام پسندوں کے حلق سے نیچے نہ اتریں۔ اپنے ہر حق سے دستبرادر ہو کر وہ پاکستان اسلامی نفاذ شریعت کے لئے نہیں آئ تھیں جس کے بارے میں کوئ بھی یہ جواب دینے سے قاصر ہے کہ اسے کس فقہے سے تعلق رکھنا تھا۔
    اان جیسے ان گنت لوگ یہاں ملیں گے۔ وہ بھی اس وقت کے بزرگوں میں سے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے کے بزرگوں کی تحریریں اور سوانح حیات موجود ہیں جن سے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کو ضرور گذرنا چاہئیے تاکہ وہ اپنے طور پہ سوچنے کے قابل ہو سکے۔
    یہی نہیں اگر ادبی کتابیں اٹھائیں جیسے منٹو کی کتابن یا ان ادیبوں کی کتابیں جنہوں نے اس وقت یعنی تقسیم پاکستان کے وقت ادب لکھا ان سے کہاں ظاہر ہوتا ہے کہ سب اسلامی نفاذ شریعت کے لئے بے قرار تھے۔ یہ سب ادیب عوام کے بارے میں لکھتے تھے۔ اور کچھ نہیں مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں پہ سے گذر جائیں انی زرغزشت پڑح ڈآلیں۔ یہ سب عوام کی باتیں لکھنے والے لوگ کہیں بھی یہ نہیں لکھتے نظر آتے۔
    اسلامی شریعت کے نفاذ کا نعرہ پاکستان بننے کے کئ سال بعد اسی لئے کھڑآ کیا گیا تاکہ ملک میں تقسیم در تقسیم کی بلند دیواریں کھڑی کر دی جائیں اور اسے ایک مثالی مسلمانوں کی حکومت بنانے کے بجائے ایک اسلامی شریعت کے نفاذ پہ جھگڑے کھڑے کرنے والا ملک بنا دیا جائے۔
    جہاں مثالی مسلمان ہی موجود نہ ہونگے وہاں کیا کسی کو ڈنڈے کے زور پہ مسلمان بنا کر رکھا جائے گا۔ طالبان کی طرح۔ دنیا کی تاریخ میں انسان کبھی بھی زبردستی کا غلام نہیں بنا چاہے وہ کسی مذہب کا مضبوط ترین اثر ہی کیوں نہ ہو۔

  • السلام علیکم
    تمام لوگوں کا بہت شکریہ بلاگ پر تشریف آوری کا اور تحریر کو تبصرے کے قابل سمجھنے کا۔

    مزید میں آپ کے تبصروں کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میرا علم اور تجربہ اس معاملے میں بہت کم ہے۔مجھے تو محض کتابی یا سنی سنائی باتیں ہی معلوم ہیں۔۔۔ جہاں تک تحریر کی بات ہے تو میرے دماغ میں بہت کچھ اور بھی تھا، بہت سے سوالات، بہت سے خدشات لیکن پتا نہیں کیوں سب گول کرکے بس یہی بے ضرر سی تحریر لکھ پایا ہوں۔ میں کسی کو ڈیفنڈ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، بس ایک مخصوص رویے کی نشاندہی مقصود تھی۔

  • "جناب، ہمارا قانون کچھ مذہبی شکوں(قادیانیت،حدود آرڈیننس، نسواں بل وغیرہ) کو چھوڑ کر باقی سارا کا سارا برطانوی سیکولرازم کی بنیار پر رکھا گیا ہے۔"

    برطانوی سیکولر نظام تو ساری دنيا ميں چل رہا ہے، سارا گند تو ان ”اسلامي” قوانين کے بعد آيا- کيا آپکے ناروے ميں بھی ايک لڑکی کو ريپ کے بعد جيل بھيج ديا جاتا ہے کہ وہ چار گواہ نہيں پيش کرسکی يا کسی مسلمان کي گواہی قبول نہيں کی جاتی کہ وہ اقليت ہے؟ کيا سيکولر معاشروں ميں تمام مذاہب کے پيروکار، اسلام سميت، پھل پھول نہيں رہے؟

    کچھ لوگ کہہ رہے ہيں کہ قصور جہالت کا ہے مولوی کا نہيں- ارے بھائی يہ جہالت مولوی ہی کی تو لائی ہوئی ہے- جب سے مولوی کے دباؤ ميں ”اسلامائزيشن” آئی ہے کشتوں کے پشتے لگے ہيں اور معلوم نہيں کب تک لگيں گے-

  • " توپاکستان کامطلب کیالاالہ الااللہ کاکیامطلب تھا؟"

    بھئی قاعداعظم نے يہ نعرہ کب لگايا تھا يا اسکی تائيد کي؟

  • "کمال تو يہ ہے کہ قراردادِ مقاصد ميں بھی واضح ہے کہ پاکستان اسلامی سلطنت ہوگ"

    قرارداد مقاصد کا نعرہ ”حاکميت اللہ کي ہے” وہی ہے جو خارجی ہر دور ميں لگاتے رہے ہيں چاہے حضرت علی کے دور ميں يا پاکستان کی مخالفت کرنے والی ”مذہبيي” سياسی جماعيتيں جماعت اسلامي، جميعت علما ء وغيرہ يا پھر طالبان- حضرت علی نے يہ نعرہ سن کہ فرمايا تھا يہ لوگ بات اچھی کرتے ہيں ليکن فساد پھیلانے کے ليئے- اللہ کو اپنی حاکميت کے ليئے کسی انسان کی ضرورت نہيں يہ سب مولويوں کو کھلانے پلانے کے بہانے ہيں- آخر عوام کو بيوقوف بنانے کے ليئے بظاہر کوئی دل لگتی بات کرنی پڑہتی ہے-

  • "کچھ لوگ کہہ رہے ہيں کہ قصور جہالت کا ہے مولوی کا نہيں- ارے بھائی يہ جہالت مولوی ہی کی تو لائی ہوئی ہے-"

    جہالت تو سارے معاشرے میں موجود ہے اور مولوی بھی اسی معاشرے سے ہی آتے ہیں ۔۔.. وہ جہالت جو مذہب کو for granted لینے کی وجہ سے اور اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے آئی۔۔۔۔اب اس کا الزام کسی کے سر بھی ڈال دیا جائے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    اگر آپ بات ہی یہ کر رہے ہیں کہ سیکولرزم ایک بہتر حل ہے اس ساری صورت حال کا تو پھر تو جو میں کہہ رہا ہوں اس موضوع کی تو گنجائش ہی نہ رہی نا۔۔۔۔

  • عارف کريم صاحب ۔ آپ نے درست کہا ۔ ہماری قوم کا الميہ يہی ہے جو آپ نے بيان کر ديا ۔

    عنيقہ ناز صاحبہ ۔ آپ نے اپنے تصور کے سوا کچھ اور تو ماننا نہيں ہے ۔ قرادادِ مقاصد کو پاکستان بننے کے بعد کا واقعہ کہہ کر کيا آپ اُن معمارانِ قوم کو جھٹلانا چاہتی ہيں جنہوں نے دن رات محنت کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کو ايک پليٹ فارم پر اکٹھا کيا ۔ اور جن ميں شہيدِ ملت لياقت علی خان ۔ سردار عبدالرب نشتر ۔ اے کے فضل الحق جيسے لوگ بھی شامل تھے ؟

    عجيب بات يہ ہے کہ جس شخص ميں اپنا نام ظاہر کرنے کی بھی جرات نہيں ہے وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنی گندھگی کسی کے بلاگ پر کيوں صاف کرتا ہے ؟

  • عنيقہ ناز صاحبہ ۔ آپ نے لکھا ہے
    "اس نعرے کا حوالہ دینا کہ پاکستان کا مطلب کیا۔ یہ سب تو سیاسی نعرے ہیں جو عوام میں انکی علیحدہ شناخت کے حوالے سے بنائَ گئے تاکہ پاکستان کے معاملے پہ مسلمان ہونے کے حوالے سے جذباتی ہوں "

    گويا قائد اعظم اور اُن کے سب ساتھی منافق تھے ۔ يہی کچھ جانتی ہيں آپ تحريکِ پاکستان کے متعلق ؟
    اور اسی پاکستان ميں بھارت کو چھوڑ کر آپ کے بزرگ آئے تھے جو منافقت سے حاصل کيا گيا تھا ؟

    آپ نے مزيد لکھا ہے
    "بچوں کو مذہب کی بنیادی تعلیم دینی چاہئیے۔ اور ایک وقت میں جب ان میں کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہیے انہیں یہ انتخاب دینا چاہئیے کہ کیا وہ حفظ قرآن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ کیونکہ اب خاندان کے ستر افراد کی بخشش کروانی ہے تو کسی ایک بچے کو اسکی ذمہ داری دے دی جائے۔ اس زمانے میں پرنٹنگ کی سہولت نہیں تھی اس لئے حفاظ تیار کئے جاتے تھے تاکہ قرآن محفوظ رہے"

    جس طرح ضروری نہيں کہ سب انجيئر يا ڈاکٹر يا دوسرے مضامين پڑھنے والے اپنے علم پر عمل کريں اسی طرح جتنے لوگ قرآن شريف حفظ کرتے ہيں وہ سب کے سب عملی زندگی ميں قرآن شريف کو مقدم نہيں رکھتے کيونکہ وہ اسی معاشرے کے افراد ہيں جہاں شيطانيت زيادہ اور انسانيت بہت کم ہے

    مذہب کی بنيادی تعليم سے آپ کيا مراد ليتی ہيں ؟
    کيا قرآن شريف پڑھے اور سمجھے بغير اسلام کی تعليم ممکن ہے ؟

    آپ کے مطالعہ يا مشاہدہ کے مطابق بچے ميں سمجھ بوجھ کب پيدا ہوتی ہے ؟
    اور کب بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے اچھے بُرے کا خود درست فيصلہ کرے ؟

    بچوں کی نفسيات کے اکثر ماہرين کہتے ہيں کہ بچہ پيدائش کے فوری بعد سيکھنا شروع کر ديتا ہے ليکن سب متفق ہيں کہ پيدائش کے دو ماہ بعد بچہ تيزی سے سيکھنا شروع کر ديتا ہے ۔ موجودہ زمانے ميں يورپ اور امريکا ميں 2 سے 3 سال کے بچوں کو پری سکول ميں داخل کرايا جاتا ہے جہاں اُنہيں رہنے سہنے بات کرنے کے طور طريقے سکھائے جاتے ہيں اور نظميں ياد کرائی جاتی ہيں ۔ کيا يورپی اور امريکی جاہل ہيں ؟

    خاندان کے 70 افراد کے بخشے جانے کی بات ميں 70 سال کی عمر پا جانے کے بعد پہلی بار آپ سے سُن رہا ہوں ۔ نہ ميں نے کسی کتاب ميں پڑھی نہ کسی سے سُنی

    آپ شايد جان بوجھ کر حافظِ قرآن کو جاہل ثابت کرنا چاہتی ہيں ۔ حقيقت آپ بھی جانتی ہوں گی کہ ايسا نہيں ہے ۔ ميرے ايک دوست حافظِ قرآن اور قاری بھی ہيں ۔ وہ ايم ايس سی انجيئرنگ ہيں اور سرکاری افسر ہيں ۔ اُن کے دونوں بيٹے بھی حافظِ قرآن ہيں ۔ بڑے بيٹے نے بی سی ايس پاس کر ليا ہے اور ابھی زيرِ تعليم ہے ۔ چھوٹا بيٹا ہائی سکول ميں ہے ۔ ان تينوں باپ بيٹوں نے 6 سے 8 سال کی عمر ميں قرآن شريف حفظ کيا تھا اور ہر سال ايک بار دہراتے ہيں ۔ مدرسوں ميں قرآن شريف حفظ کرنے کيلئے کم سے کم عمر 6 سال رکھی گئی ہے ۔ 3 سالہ بچے آپ کے محلے والے قرآن شريف حفظ کرنے بھيجتے ہوں شايد

    رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں پرنٹنگ کی سہولت نہ ہونا قرآن حفظ کرنے کی وجہ نہيں تھی اور قرآن کے حفاظ تيار نہيں کرائے جاتے تھے بلکہ مسلمان خود حفظ کرتے تھے کہ اُنہيں اللہ کے احکام پر پورا اور درست عمل کرنے کی حُب تھی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اتنی بڑی کتاب کو حفظ کرنا آسان بنا ديا اور اس طرح قرآن اول روز سے آج تک درست حالت ميں ہزاروں انسانوں کے سينوں ميں محفوظ کئے رکھا اور ايسا قيامت تک ہوتا رہے گا

  • السلام علیکم
    افتخار صاحب بہت شکریہ اتنی تفصیل سے تبصرے کرنے کا۔
    میں آپکی زیادہ تر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، گو کہ میرا موضوع یہ نہیں تھا۔
    لیکن ایک بات میں کرنا چاہوں گا کہ بے شک قرآن پاک حفظ کرنے کا مقصد اسلام کو سمجھنا ہی ہے۔ لیکن جس طرح یہاں قرآن پاک حفظ کروایا جاتا اس میں کہیں بھی یہ بات نہیں سکھائی جاتی کہ یہ جو عربی آیات زبانی یاد کی گئی ہیں ان کا مطلب کیا ہے۔۔۔میں یہ بات محض تنقید کے لئے نہیں کہہ رہا بلکہ میں خود اُس ماحول میں رہ چکا ہوں اور بات یہ نہیں ہے کہ 6 سالہ بچے حفظ کرتے ہیں یا 60 سالہ۔۔۔۔ لیکن جس طرح حفظ کروایا جاتا ہے اس کا مقصد کیا ہوتا ہے۔۔۔ صرف رٹا لگا لینا۔۔۔عربی کون جانتا ہے یہاں۔۔؟
    اور بات اسی نکتے پہ آ کر رکے گی کہ جہالت کا خاتمہ ہی اس رجحان کو بدل سکتا ہے۔

  • عين لام ميم صاحب
    آپ نے درست کہا ہے جو طريقہ ہمارے ہاں عام مساجد ميں رائج ہے اُس کا کوئی فائدہ نہيں ۔ اگر ميں سب کچھ لکھنے کی کوشش کرتا تو کبھی شائع نہ کر پاتا ۔
    بجلی بار بار غائب ہو جاتی ہے

  • آپ نے اتنا لکھ دیا یہی کافی سے زیادہ ہے جناب۔۔۔ اور بجلی کا تو نہ ہی پوچھیں ۔۔۔!

  • گو کہ مجھے فی زمانہ مولویت سے بڑی شکایات ہیں لیکن اس کے باوجود میں سیکولروں کے رویے سے بھی نالاں ہوں۔
    دونوں رویے دراصل دو انتہاؤں کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ایک قدامت میں اور ایک چاپلوسئ مغرب میں۔
    اللہ بچائے۔

  • بلاگ سپاٹ پر اس قدر خوبصورت تھیم بنانا اور تبصروں کا نظام قائم کرنا بہت ہی حیرت انگیز ہے، آپکا بلاگ بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔
    ویسے ہی آپ کے بلاگ پر آیا تو یہ تحریر اچھی لگی، میں نے بھی اپنے بلاگ پر اسی رویے کے متعلق کچھ عرصہ قبل لکھا تھا، اور آج اتفاق سے محمد سعد صاحب کے بلاگ پر بھی ایس ہی ایک تحریر نظر آئی، مزید تبصرہ کیا لکھوں ، جو کچھ میرے ذہن میں تھا وہ تو پہلے ہی یہاں لکھ چکاہوں
    http://yasirimran.wordpress.com/2009/09/29/islami-uloom/
    شکریہ

  • یاسر عمران بھائی تشریف لانے اور بلاگ پسند کرنے کا بہت شکریہ۔
    بس کچھ اردو محفل کی بدولت اور کچھ خود ہاتھ پاؤں مار کر بنا ہی لیا ہے۔ :)۔
    تحریر پسند کرنے کا بھی شکریہ، آپکی تحریر بھی دیکھتا ہوں کہ میں نے پہلے نہیں پڑھی ہوئی۔

Post a Comment

بلاگ پر آنے کا شکریہ۔اس تحریر پر تبصرہ کرکے آپ بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچائیں۔

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر (سبز) میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے (سفید) میں کاپی پیسٹ کر دیں۔ اردو ٹائپنگ کیلئے آپ نیچے دیئے گئے On Screen کی بورڈ سے مدد لے سکتے ہیں۔۔