متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

نو ٹنکی؛ ایک نیا بلاگ

10 تبصرہ (جات)۔ Thursday, April 22, 2010
یہ بلاگ پوسٹ "9 ٹنکی" جو کہ میرے عزیز دوست کا اردو بلاگ ہے، اس کو متعارف کروانے کی غرض سے چھاپ رہا ہوں۔ یہ وہ پہلا بلاگ ہے جو کسی نے میرے بلاگ کو دیکھتے ہوئے اور متاثر ہو کر بنایا ہے۔ اس کو بنانے میں میں نے حتی الامکان مدد فراہم کی ہے اور آج اس بلاگ کی پہلوٹھی کی پوسٹ شایع ہوئی ہے۔ گو کہ میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں میں ایک بلاگر کے طور پر زیادہ معروف نہیں ہوں اور شاید ہی کوئی میری پوسٹیں پڑھتا ہو گا :( اس کی بڑی وجہ اردو بلکہ کمپیوٹر پر اردو سے نا آشنائی ہے۔ دوسری وجہ ہماری تعلیم کچھ اس طرح کی ہے جو ادبی لگاؤ کم ہی پیدا ہونے دیتی ہے۔ ویسے یہ بات زیادہ درست نہیں ہے کیونکہ اور تو اور ہمارا < سِی آر > بھی ایک شاعر صفت انسان ہے۔ ؛)
چلو اب اس بہانے ثاقب تو میری پوسٹیں پڑھ ہی لیا کرے گا ورنہ اس کی پوسٹیں کون پڑھے گا۔۔! اور جہاں تک بقول ثاقب کے ’و‘ کی بات ہے تو اسکو اب ہم دونوں ہی ’زبردستی‘ اپنے بلاگ پڑھوایا کریں گے۔۔۔۔۔
کل منظرنامہ پر خرم ابنِ شبیر صاحب کا تعارفی انٹرویو پڑھا تھا جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اردو میں بلاگز کی تعداد بڑھانے کا وقت ہے، معیار خود بخود بڑھ جائے گا، مین ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بلاگنگ خصوصاً اردو بلاگنگ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کیلئے صحتمندانہ ذرائع استعمال کریں۔ بلاگنگ سے پڑھنے، لکھنے اور تبصرہ کرنے والوں میں سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں اور وہ اپنے خیالات کے منفی و مثبت پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ تنقید برداشت کرنا اور اس کے مثبت رخ کو سمجھنے کی کوشش کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ بلاگنگ میں ضروری نہیں کہ ادبی موضوعات یا شاعری کا ہی انتخاب کیا جائے بلکہ جو بھی آپ کا شعبہ ہے اس کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ اس سے آپ کو اپنی بات بہتر اور پر کشش انداز میں دوسروں تک پہنچانے کا سبق ملتا ہے۔
آخر میں تمام پڑھنے، سننے اور دیکھنے والوں سے درخواست کروں گا کہ وہ نئے بلاگرز کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔ شکریہ :)
Read On

پہلا پہلا واقعہ

10 تبصرہ (جات)۔
ہمیشہ کی طرح میرے ذہن میں اس وقت کوئی تحریر جنم لیتی ہے جب میں کسی بلاگ پر جا کر تبصرہ کرتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس کو ذرا اور بہتر کر کے اپنے بلاگ پہ ہی پوسٹ دوں تو مزید لوگ مستفید ہو جائیں گے اور بلاگ بھی ہرا بھرا رہے گا۔۔۔
تو یہ قصہ ہے اس زمانے کا جب میں ایف ایس سی سے فارغ ہوا تھا (یعنی کہ صرف تین سال پرانا) اور اسلام آباد میں یونیورسٹی داخلے کیلئے <این او سی> چاہیئے تھا۔ چونکہ مجھے جی سی یو چھوڑے کچھ ماہ ہو چکے تھے اس لئے میں اپنے ہاسٹل سے بھی فارغ ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں صبح سویرے لاہور روانہ ہوا ۔ جمعہ المبارک کا دن تھا۔ لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے دفتر پہنچا۔ میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ صبح جا کر دفتر میں فارم پُر کر کے جمع کروا دینا اور تین چار گھنٹوں بعد آکر سرٹیفیکیٹ لے لینا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور فارم پُر کرکے جمع کروا دیا۔ کلرک نے کہا کہ فلاں بجے آکر لے لینا (مجھے ٹائم ٹھیک سے یاد نہیں)۔ میں وقتِ مقررہ پر آ گیا اور دفتر میں موجود ایک قدرے نوجوان کلرک سے اپنے سرٹیفیکیٹ کی بابت پوچھا۔ وہ صاحب بولے کہ اب تو دفتر کا وقت ختم ہو رہا ہے آپ کو سرٹیفیکیٹ دو دن بعد ہی ملے گا (کیونکہ اگلے روز ہفتہ تھا اور غالباً کوئی عام تعطیل تھی)۔ میں ایک دم پریشان ہو گیا کیونکہ میں دو دن وہاں رُک نہیں سکتا تھا اور سوموار کو میں نے اسلام آباد سرٹیفیکیٹ جمع کروانے جانا تھا۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ مجھے یہی وقت دیا تھا اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں مل سکتا۔ وہ بولا کہ جن سرٹیفیکیٹس پر دستخط ہونے تھے ان پر پہلے ہی ہو چکے ہیں، اب مزید نہیں ہونگے کیونکہ دفتری اوقات ختم ہونے والے ہیں۔ میں نے اپنی مجبوری بیان کی کہ میں یہاں رک نہیں سکتا اور لالہ موسیٰ سے آیا ہوں۔ وہ بولا کہ آپ ایسا کریں کہ تین سو روپے دیں اور تین گھنٹوں بعد آ کر سند لے جائیں۔۔۔۔ میں نے کچھ سمجھی اور کچھ نا سمجھی کی کیفیت میں کہا کہ جو تین سو روپے فیس ہے اس سرٹیفیکیٹ کی، اس کا بینک چالان فارم میں نے لگایا ہے فارم کے ساتھ(اور پورا گھنٹا لائن میں لگ کے جمع کروائی ہے فیس!)۔ ۔۔۔بولا یہ نہیں اس کے علاوہ تین سو روپے مجھے دیں تو میں 3 گھنٹے بعد سند لا دوں گا۔۔۔۔
میں حیران پریشان کمرے سے باہر آیا اور سوچنے لگا کہ کیا اس شخص نے ابھی ابھی مجھ سے رشوت مانگی ہے۔۔۔۔! کیا رشوت ایسے مانگی جاتی ہے؟۔۔۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ ڈھکے چھپے انداز میں مانگتے ہوں گے اور کیا اس طرح تعلیمی اداروں میں براہ راست ایک سٹوڈنٹ سے۔۔۔۔۔!
مجھے واقعی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے اپنے دوست کو فون کیا ور ماجرا بیان کیا۔ وہ بولا کہ یار ! مجھے تو آسانی سے مل گیا تھا۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کو کال کی اور پتا نہیں کیوں مجھے اپنی آواز میں نمی محسوس ہوئی (پتا نہیں میں اتنا اووَر رِی ایکٹ کیوں کر رہا تھا۔۔)۔۔۔۔ بھائی نے کہا کہ دوبارہ جا کر بات کرو۔
میں نے دل میں کیا دعا مانگی اور کیا الفاط دل سے نکلے یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن جب میں دوبارہ دفتر میں گیا تو وہاں اس ڈیسک پر اس لڑکے کی جگہ کوئی اور کلرک موجود تھا۔ میں نے دوبارہ سے اپنی درخواست دہرائی تو اس کلرک نے میری جانب دیکھا اور پوچھا کہ کب دے کر گئے تھے اپنا درخواست فارم؟ میں نے وقت بتایا تو اس نے ایک بڑی سی فائل میرے سامنے رکھی اور کہا کہ اس میں سے اپنا سرٹیفیکیٹ نکال لو اور یہاں دستخط کر دو۔۔۔۔۔!
مین ایک دفعہ پھر حیران تھا لیکن اب کے میں پریشان نہیں تھا۔۔۔۔
یہ زندگی کا پہلا براہ راست واقعہ ہے اس سلسلے کا۔۔۔۔ مزید بھی لکھوں گا پھر کبھی۔۔۔
Read On

اصل وجہ؛ مولوی یا جہالت

23 تبصرہ (جات)۔ Monday, April 12, 2010
آج نوجوانوں کی اکثریت اگر دینی حلقوں کے مکمل خلاف نہیں تو کم از کم بیزار ضرور ہے اور اس کی بڑی وجہ جہالت ہے۔ مولوی اصل مسئلہ نہیں ہیں اصل مسئلہ جہالت ہے، خواہ وہ کسی بھی طبقے میں ہو.۔مولوی طبقہ زیادہ بدنام اسلئےہے کہ وہ اپنے جائز و نا جائز تبصروں، ذاتی چپقلشوں اور دشمنیوں ، سیاست یا باقی تمام معاملات میں دین کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ ہمارے چاروں طرف یہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس جو بھی علم ہے اس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرو،تو پھر ہم میں سے ہی نکلنے والے مولوی ہم سے مختلف کیونکر ہوں گے؟ میں علما کی بات نہیں کر رہا۔ جو نیم ملا ہو گا وہی خطرہ ایمان ہو گا۔ جب لوگ ہی وہ آتے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس "ہتھیار" سے تو بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ اور اس جہالت کو فروغ دینے والے کون لوگ ہیں،۔۔۔۔ہم!
ان لوگوں کو دین کی اجارہ داری کس نے سونپی ہے، ہم نے۔۔۔ اپنے آپ کو دین کی الجھن سے آزاد کرنے کیلئے، جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے۔۔۔ ۔اگر محلے کی مسجد میں کوئی سچ بولنے والا واعظ آ جائے غلطی سے تو ’ مسجد کمیٹی‘ کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے(اور یہ کمیٹیاں جن حضرات پہ مشتمل ہوتی ہیں آپ جانتے ہی ہوں گے!) اور ان حضرت کو ان کے علم سمیت نکال باہر کیا جاتا ہے کہ صاحب اگر مسجد کو چندہ دینے والے حضرات کا مال ہی سودی ثابت کر دیا تو کاروبار کیسے چلے گا مسجد کا!
اور جب وہ حضرت یہ حال دیکھتے ہیں اور تین چار جگہوں سے اسی طرح نکالے جاتے ہیں تو اگلی دفعہ خاص احتیاط کرتے ہیں کیونکہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں، اور بد قسمتی سے سب کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے، عوام اور انتظامیہ کی طرح، لہٰذا مہینے کے چار جمعوں کے چار خطبے، عیدین اور رمضان کے خصوصی خطبات اور اس کے علاوہ کمیٹی کی خصوصی فرمائش پر فلاں فلاں مسجد کے مولویوں اور انتظامیہ کے خلاف ’ قرآن و سنت‘ کی روشنی میں اسلام کے دروازے بند کر نا، یہی ان کا فرضِ منصبی قرار پاتا ہے۔ جس سے محلے میں ان کے علم کی دھوم مچ جاتی ہے۔۔۔ عوام خوش، انتظامیہ خوش، مولوی خوش!!
جائزہ لیں اور سوچیں کہ کتنے لوگ ہیں ایسے جو اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینے کے بارے میں سوچتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہوتی ہے کہ گھر میں کھانے کو ہوتا نہیں ہے، کمانے والا سب کچھ "لُٹا" کر گھر آتا ہے۔۔۔ چلو جی چھوٹے کو مدرسے میں ڈال دو، خود بھی آرام سے کھائے گا اور ہمارے لئے بھی مانگ لائے گا دال روٹی!
یا پھر، ایک بچہ تو ماشا اللہ حساب میں اتنا اچھا ہے کہ وہ تو ابھی سے ہی بینکر بننے کا سوچتا ہے اور دوسرے والا تو جناب ڈاکٹر ہی بنے گا، ماشا اللہ بہت تیز دماغ ہے اس کا۔ ۔۔۔اور اس کا کیا بنے گا، سارہ دن آوارہ پھرتا ہے، روز ہی کسی نہ کسی کا ‘ لانبا’ آتا ہے، سکول میں ڈالا تو تھا لیکن بھاگ جاتا ہے وہاں سے، ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ اسے سکول کی دیوار سے بھی دور رکھو نہیں تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔ہائے! کیا بنے گا اس آوارہ کا؟
میں تو کہتا ہوں اس کو پاس والے گاؤں کے مدرسے میں ڈال دوں، وہیں رہے گا اور چار دن مار کھائے گا مولوی کی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں گھر میں پڑا پڑا روٹیاں تو نہیں توڑے گا نا!
اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ اِن پُٹ آپ کے سامنے ہے اور آؤٹ پُٹ کی امید ایکسٹرا رکھی جاتی ہے۔۔۔
Read On

شعیب اور ثانیہ؛ دامادِ ہندوستان اور بہوٗ پاکستان

8 تبصرہ (جات)۔ Thursday, April 8, 2010
تقریباً ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے کہ میڈیا میں ایک ہی بات کی لسّی بنائی جا رہی ہے اور وہ ہے جناب محترمی و مکرمی شعیب ملک سلّمہ’ کی شادی خانہ آبادی ہمراہ محترمہ آنسہ ثانیہ مرزا سلّمہَا جو کہ 15 اپریل 2010 بروز جمعرات کو ہونا قرار پائی ہے، اس معاملے کو وہ شہرت حاصل ہوئی ہے جو شاید عمران خان اور جمائما کو بھی نہیں ملی تھی۔ اور وجہ صرف اور صرف پاکستانی و بھارتی میڈیا۔۔۔۔۔۔ اس میڈیا وار میں پاکستانی میڈیا نے منہ توڑ جواب دیا ہے بھارتی میڈیا کو، اور ان سے بھی بڑھ کر ڈرامائی رنگ میں پیش کیا اس سارے معاملے کو، لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔
کبھی عایشہ صدیقی کا قصہ تو کبھی سیالی بھگت۔۔۔۔۔ کچھ اس کہانی میں ویسے ہی بڑے ٹوسٹ تھے کہ یہ خود ہی ایک سٹار پلس کے ڈرامے کی طرح آگے بڑھ رہی تھی، باقی کسر میڈیا پہ ہونے والے تبصرے و تجزیے پوری کر رہے تھے جیسے کوئی قومی سلامتی کا مسئلہ زیرِ بحث ہو!. پاکستانی قوم تو خیر ویسے ہی اس معاملے میں شعیب ملک کے ساتھ تھی اور "دل" سے چاہتی ہے کہ ثانیہ مرزا پاکستان کی اجتماعی بہو بن جائے۔ جیسا کہ ایک ایس ایم ایس میں محترمہ ثانیہ مرزا کو بھابھیٗ قوم کا توصیفی خطاب بھی دیا گیا ہے!۔

خبروں کی سرخیاں تو اس حد تک جا چکی تھیں کہ " ابھی ابھی ثانیہ مرزا اپنے گھر کی بالکونی میں موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دیکھی گئی ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی والدہ اور شعیب ملک بھی کمرے سے برآمد ہوئے ہیں اور کسی معاملے پر بات کر رہے ہیں، وہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔ " ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ فوٹیج سب سے پہلے ہم نے اپنے ناظرین تک پہنچائی ہے اور اس پریشانی کی نوعیت کے بارے میں ہم نے بات کرنے کیلئے دعوت دی ہے جناب ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فلاں فلاں خیالی صاحب کو۔۔۔"
"ثانیہ مرزا اپنے کمرے میں خوشی سے جھومتی پائی گئی ہیں"۔۔۔۔۔۔۔ اس حوالے سے ہم نے بات کرنے کیلئے اپنے سٹوڈیوز میں دعوت دی ہے مشہور رقاصہ محترمہ م،ن نرگس صاحبہ کو۔۔۔!"
" شعیب ملک گھر سے نکلتے ہوئے پریشانی میں اپنے بال بنانا بھول گئے"۔۔۔۔ اسوقت ہمارے ساتھ آنلائن موجود ہیں مایا ناز ہیئر سٹائلسٹ جناب فلاں فلاں بوبی۔۔۔۔!
"عایشہ صدیقی نے عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا"۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں ماہرِ قانون فلاں فلاں طلاقی صاحب۔۔۔۔!
اور ابھی تو اس ڈرامے کا ڈراپ سین یعنی شادی خانہ آبادی بھی باقی ہے۔۔۔۔۔ جب ن لیگ کی خواتین "غائبانہ مہندی" کی رسم ادا کر سکتی ہیں توشادی کے بعد کی رسومات کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ شعیب ملک کو ہنی مون منانے کیلئے گلگت بلتستان میں آنے کی دعوت تو دی ہی جا چکی ہے۔۔۔۔۔بس اب گلی گلی میں تہنیتی پیغامات کے بینر اور بورڈ لگانے کی کمی ہے، جو کہ ضرور پوری کی جائے گی کہ یہ تو ہماری قوم کا خصوصی مقابلہ ہوتا ہے کہ دیکھیں کون محلے کی دیواریں زیادہ رنگین کرواتا ہے۔۔۔۔!


Read On