متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

گرینڈ کوئز

0 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, July 15, 2009
یار بھلا اتنا مشکل کوئز بھی کوئی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ؟ سر کو بھی پتا ہے کہ اس ایک ٹاپک کے لئے ایک دن تو کیا پوری زندگی کی تیاری بھی کم ہے!!
صحیح کہہ رہے ہو، چلو سارا نہ سہی، کوئی ایک دو سوال تو بتا ہی دینے چاہئیں۔ ۔ ۔ بندہ انہی کو رٹّ لے۔
دوستو! ۔ ۔ ۔۔ ۔ پہلے میں اپنا سانس درست کر لوں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک خوشخبری ہے ۔ ۔ ۔
کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ کیا سر نے کوئز کینسل کر دیا۔ ۔ ۔ ؟!
ارے نہیں یار! ایک سینئر نے( گیس ) guess بتایا ہے کل کے کوئز کے بارے میں۔
جلدی بتا یار۔ ۔۔ ۔ چلو کچھ تو آسرا ہوا۔ ۔ ۔
میرے بھائی گیس ہے، کوئی پکی بات نہیں ہے۔ ۔۔ !
خیر اب اسی کا رٹّا لگا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کچھ تو جواب دینے کے قابل ہو ہی جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا سوال: کیا آپ نے اپنے ربّ کے حکم کے مطابق، اس کی رضا و ثنا کے لئے نماز قائم کی؟
یہ۔ ۔ ۔ یہ سوال ۔ ۔ ۔یہ سوال تو مجھے پتا ہی نن۔ ۔ ن۔ ۔ ۔
اس سوال کا تو مجھے پتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ شروع سے ہی پتا تھا۔ ۔ ۔ تمام مخلوق سے سینئر خاتم المرسلین محمد مصطفیٰ ﷺ نے (گیس ) نہیں بلکہ یقینی بتا دیا تھا کہ سوالنامے کا پہلا سوال یہی ہو گا ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا ساری زندگی میں یہ ایک معلوم سوال بھی تیار نہیں ہو سکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Read On

یہ وقت بھی گزر جائے گا

5 تبصرہ (جات)۔ Saturday, July 4, 2009
کل رات ہم سب دوست کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے اور چائے کا انتظار کر رہے تھے۔ بات تو کچھ اور ہی چل رہی تھی لیکن ہمارے ایک سینئر دوست عرف بھائی جان نے ایک قصّہ سنایا، آپ بھی سنئے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش صفت بزرگ سے ہوئی، بزرگ بہت نیک اور پرہیزگار تھے۔ بادشاہ اُن سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں اس نے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز ، تعویز، وظیفہ وغیرہ لکھ کر دیں جو انتہائی مشکل میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھا تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اُسی وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی انتہائی مشکل میں۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی حکومت کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل میں ایک غار میں چھپ گیا۔ دشمن کے فوجی اس کے پیچھے تھے اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا، اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس ہی تھا۔ سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اسے قریب آتی سنائی دے رہی تھی، اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب اس نے وہ کاغذ کھولا تو اس پر لکھا تھا " یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔!
بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے، کوئی اسمِ اعظم ہوتا یا کوئی سلیمانی ورد!۔ ۔ ۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بارہ پڑھا۔ ۔۔ ۔ کچھ دیر تو بادشاہ سوچتا رہا، غور کرتا رہا کہ کیا کرے پھر آخر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے، اس نے مقابلہ کیا ا ور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کس طرح کسی دوسرے ملک میں گیا، وہاں اس نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا، اسے ہتھیاروں سے لیس کیا اور آخر کار ایک وقت آیا کہ اس نے اپنا ملک واپس لے لیا اور پھر سے اپنے تخت پہ جلوہ نشیں ہوا۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پہ اور سلطنت پہ تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ آیا کہ " یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔ ۔ ۔ ۔!!

Read On

بَن کے بستر بوریا

4 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, July 1, 2009
بَن کے بستر بوریا
اسی تے چلے کوریا
بجلی ایتھے رہندی نئیں
پوری کِسے دی پیندی نئیں
ہر کوئی ایتھے رو ریا
اسی تے چلے کوریا

ہر کوئی ایتھے ڈردا اے
نالے پُکھا مَردا اے
پینڈو ہووے یا لہوریا
بن کے بستر بوریا
اسی تے چلے کوریا

تُسی وی بَنو بستر بوریا
تے چلو ساڈے نال کوریا!

Read On