متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

کچھ انجینئرنگ کے بارے میں

10 تبصرہ (جات)۔ Sunday, May 24, 2009
(مختصر مختصر سے منتقل شدہ)

“انجینئرنگ” دو الفاظ پہ مشتمل ایک اصطلاح ہے۔
‘انجن’ اور ‘رِنگ’ ؛ انجن کے بارے میں سب لوگ جانتے ہی ہوں گےکہ یہ ایک ایسی چلتی پھرتی شے ہے جو “چھُک چھُک ” کی رٹّی رٹّائی آواز نکالتا آگے یا پیچھےکی سمت میں رواں رہتا ہے۔
رِنگ ایک ایسی گول شے ہے جس کے سِرّے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ یوں اس لفظ کا مطلب نکلتا ہے کہ انجینئرنگ کسی انجن یا اس سے مشابہ (یعنی کسی بھی چلتی پھرتی!) چیز کا ایک گول دائرے (یعنی رِنگ) میں چکر لگائے جانا اور رٹّی رٹّائی آوازیں نکالے جانے کا نام ہے۔۔۔۔
مندرجہ بالا تفصیل سے انجینئرنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے کہ انجینئرنگ کرنے والے بھی گویا ایک آواگونی چکر یعنی رِنگ میں مقیّد ہیں جو پہلا سیشنل ، دوسرا سیشنل اور ٹرمینل یعنی فائنل امتحان ( یونیورسٹی طلباء خصوصاً کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے ) کے تین تکلیف دہ ادوار پر مشتمل ہے۔ (بہت سے تعلیمی اداروں میں دو ادوار پر مشتمل “چکر” بھی رائج ہے!) یہ مخلوق یعنی انجینئر بھی انجن کی طرح اپنی رِنگ نما پٹری پر کولہو کے بیل کی مانند، ان تین یا دو اسٹیشنوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔ غصّے سے دھواں دھواں ہونا اور احتجاجاً ایک ہی طرح کی آوازیں نکالنا بھی ان کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔لیکن انجن کی طرح ان کے شور سے بھی کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔ اس انجن سے منسلک ریل (یعنی بستہ یا تھیلے) میں کئی کورس کی کتابیں سواریوں کی صورت اترتی چڑھتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ یوں جب یہ انجن کم و بیش ( جس میں بیشی کے امکانات زیادہ ہیں!) چار سال لگاتار رِنگ میں گھومتے رہنے کے بعد تھک یعنی “ریٹائر” ہو جاتا ہے تو اس کے آخر میں حرف “ر” کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو اسکی جسمانی حالت سے زیادہ ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے۔ ۔ یعنی کہ اب وہ انجن(ر) بن گیا ہے (جیسا کہ روایتاً تھک جانے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے!) ۔ ۔ ۔ اور اب اگر اس لفظ اور ‘اعزاز’ کو ملا کر پڑھیں گے تو عرفِ عام میں “انجینئر” کہلائے گا۔
Read On

اردو ہے جس کا نام

4 تبصرہ (جات)۔ Thursday, May 21, 2009
۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ)
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

لو جی! یہ کیا بات کر دی؟ اردو سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ ۔ ۔ ہمارے پاکستان میں تو بچہ بچہ اردو بولتا ہے!۔ ۔ ۔ اور تواور میرا ڈیڑھ سال کابھتیجا بھی بہت شُستہ اردو بولتا ہے! بس ذرا ‘س’، ‘ش’ اور ‘ذ’،’ز’،’ج’،’ظ’ اور ‘ض’ میں تمیز نہیں کر سکتا ٹھیک سے۔ ۔ ۔!
خیر یہ تو ‘ ایکسٹرا پرافیشنسی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی اردو سیکھنے سکھانے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو قصہ اس اجمال کا کچھ یوں ہے کہ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب تقریباً سات سال پہلے وطن عزیز سے پردیس گئے تو وہاں سے واپسی پر ایک عدد ولندیزی خاتون کو ہماری بھابھی بنا کر پاکستان لائے [سچے اور پکے پاکستانی ہونے کی نشانی۔] اب پاکستانیوں کی غیر ملکی زبان سیکھنے کی “لرنِنگ کروّ”(سیکھنے کی صلاحیت کا گراف) کچھ زیادہ ہی ہے لہٰذہ ہوا یہ کہ وہ تو اردو میں بس “سلام لیکم” ، “کی حال اے؟” یا “ٹھیک او ” ہی سیکھ سکیں لیکن ہم کافی استفادہ کر گئے!
یوں بھی جناب اردو کی تو کیا ہی بات ہے، منہ اور حلق کا شائد ہی کوئی حصہ ہو گا جہاں حروفِ تہجی میں سے کسی کی رسائی نہ ہو۔ ! اور سونے پہ سہاگہ بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب نے” چنگی طرح” سمجھا بجھا کر ش، ق درست کروائے تھے۔ اب بیچارے جرمن بولنےوالوں کا کیا قصور کہ ان کی زبان میں ۲۶ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ (کچھ واول حروف بھی ہیں ) حروف جتنی لچک ہے!!
جن میں سے کچھ تو ایک سی آوازیں نکال کے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ۔ اب باقی بچنے والے بھی اردو کی ‘ر’، ‘ج’، ‘چ’، ‘ز’، ‘ذ’، اور تو اور ‘ی’ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ ہاں ، لفظ” نہیں ” کا پنجابی ہم پلہ لفظ ” نئین” موجود ہے اور مطلب بھی نفی ہی ہے۔ ۔ ۔یوں کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ وہ “اِک، دو، تِن” کرنا تو سیکھ ہی جاتے ہیں۔ ۔
بقول غیر اردو یافتہ افراد کے سب سے بڑی مشکل اردو عربی یا فارسی سیکھنے کی یہ ہے کہ ان کے حروف مفرد حالت میں اور ہوتے ہیں جبکہ الفاظ میں ان کا رنگ تو خیر نہیں ‘انگ’ اور ڈھنگ ضرور بدل جاتا ہے! اب ‘ج’ کو ہی لیجیے، تنہائی میں تو پیٹ نکال لیتی ہے، جیسے ہی کوئی دوسرا حرف دیکھتی ہے ایسے سمٹ جاتی کہ محض نقطہ ہی رہ جاتا ہے اور ‘ر’ تو مزید “گِر” جاتی ہے!
اسی طرح باقی حروف بھی عجیب و غریب ہیئت ِظاہری و باطنی رکھتے ہیں۔ اب ہماری بھابھی صاحبہ کو اردو سیکھنے کا شوق پھر سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی رومن اردو میں اردو سیکھنے کی کتاب ہونی چاہئے، تا کہ وہ الفاظ کو پڑھ سکیں ناکہ ان کی اشکال میں ہی گم ہو جائیں۔ اب انہیں میں یہ کیسے بتاؤں کہ میں نے تو آج تک کوئی “اردو سیکھیں” نامی کتاب عربی رسم الخط میں نہیں دیکھی تو رومن میں کہاں سے لاؤں! یہاں”انگریزی سیکھیں، صرف ایک ہفتے میں”، “انگلش ٹیوٹر”، “انگلش گرو” ،”انگریزی بولیں ،امریکیوں کی طرح” وغیرہ، تو ہر شہر کے ‘اردو بازار’ میں با آسانی ملتی ہیں لیکن اردو کی خرید و فروخت کا بہرحال کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ۔ ۔ ۔!!

خصوصی نوٹ: اس مضمون میں اگر کوئی اردو املاء کی غلطی پائی جائے تو اسے کلیدی تختے کے لے آؤٹ کی غلطی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس “رومن اردو” سیکھنے کا کوئی نسخہ موجود ہو تو ضرور بتائے، اردو سیکھنا سکھانا ایک کارِخیر ہے خواہ رومی ہو کہ رازی!

Read On

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔

2 تبصرہ (جات)۔
۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ) اس تحریر پہ کیے گئے تبصرے پڑھنے کیلئے ذیل کے ربط پہ جائیں۔

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
” ویلکم مرزا صاحب! سفر کیسا رہا آپکا؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ آپکو زیادہ ویٹ تو نہیں کرنا پڑا۔”
ہم خاموش رہے کہ بات کی سمجھ نہیں آئی ٹھیک سے۔
“ایکچوئلی آجکل سیکیورٹی کی وجہ سے زیادہ چیکنگ ہو رہی ہے۔” وہ بولتے رہے۔
“ہائیں! کس کی وجہ سے کون ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !”
“لگتا ہے میں ایکسائٹمنٹ میں زیادہ بول رہا ہوں۔”
” نہیں میاں! بول تو زیادہ نہیں رہے، پر بول کیا رہے ہو یہ سمجھ نہیں آرہا ہمیں!”
“اوہ! آئی ایم سوری۔ ۔ ۔لیکن کیوں؟”
“میاں ! ذرا صاف اور صرف اردو بولو تا کہ مجھ غریب کے بھی کچھ پلّے پڑے۔ہم زبانِ غیر سے قطعی ناا ٓشنا ہیں۔”
” میں معذرت خواہ ہوں مرزا صاحب! دراصل یہاں ایسے بولنا اردو ہی کہلاتا ہے۔ لیکن میں آیندہ خیا ل رکھوں گا کہ انگریزی الفاظ نہ استعمال کروں۔”
خیر صاحبو! آگے بڑھتے ہیں کہ ابھی تو آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اپنے رہنما کے ساتھ ہم ایک لمبی سی موٹر میں بیٹھ کر قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر کی دنیا بھی اردو زبان کی طرح رنگ برنگی نظر آئی۔ نہ کوئی دیسی نظر آ رہا تھا نہ ہی ولایتی، بس سب کچھ ‘آدھا تیتر آدھا بٹیر ‘ لگ رہا تھا!
ہمارے راہنما کا نام تو تھا سردار محمد جبران نواز خان لیکن بقول اسکے سب اسے پیار سے “جِبز” کہتے ہیں!”میاں ! ہم تمہیں جِبز تو نہیں خیر صرف جبران کہہ لیتے ہیں۔” جبران میاں نے بتایا کہ ہمارے رہنے کا انتظام و انصرام ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ادارے کا نام انگریزی میں تھا جو کہ ضعفِ پیری کے باعث ہم بھول گئے ہیں، ہاں! ایک اصطلاح ہمیں یاد ہے جو اس ادارے کے نام میں تھی ” انفارمیشن ٹیکنالوجی” اور اس اصطلاح کا اردو مترادف جبران میاں کو معلوم نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں! خیر اس نے ہمیں اتنا بتا دیا کہ یہ آجکل کی خاصی اہم اصطلاح ہے اور یہ معلوماتِ عامہ کے جدید نظام کی عام لوگوں تک رسائی اور اس کے عام زندگی میں عمل دخل کے متعلق جو تکنیکی عوامل کار فرما ہیں، ان کے بارے میں یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تشریح ہم نے خود اپنے آپ کو سمجھانے کے واسطے وضع کی ہے وگرنہ جبران میاں کی وضاحت تو خاصی غیرواضح تھی!
موٹر ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی جس کی پیشانی پہ لکھا تھا ” ہوٹل موتی محل”، عمارت کے اندر داخل ہوئے تو واقعی کسی محل کا گمان ہونے لگا۔ ماحول خاصا امیرانہ اور خوابناک سا تھا۔ استقبالیہ، جسے اردو میں ‘ ریسپشن’ لکھا جاتا ہے، پر ایک خاتون نے بڑے رکھ رکھاؤ سے ‘پاکستانی اردو ‘ میں بات کی ۔ پہلے سےہماری لئے محفوظ شدہ کمرے کی چابی میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے خاتون خوشدلی سے مسکرائیں اور گویا ہوئیں ” ویلکم ٹو موتی محل”۔ ۔ ۔ اتنی اردو ہم اب تک تو جان ہی گئے تھے۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے ہم نے جبران میاں سے پوچھا کہ بھائی! یہ جگہ جگہ ” رُوم” کیوں لکھا نظر آ رہا ہے؟ کیا ملکِ روم سے کوئی نسبت ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ویٹنگ روم، باتھ روم، اور تو اور یہ نماز رُوم۔ ۔ ۔کیا معنی!
بولے مرزا صاحب روم مطلب کمرہ ، انگریزی میں کمرے کو کہتے ہیں، ہم نے کہا میاں! انگریزی میں توہر تختی پہ ساتھ لکھا ہوتا ہے پھر یہ اردو ترجمے میں بھی دُم چھلہ ساتھ لگانے کی کیا تُک ہے! ظاہر ہے اس کا جواب اُس بیچارے کے پاس نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے، پاکستان میں اپنے قیام کے دوران جس چیز کا ہمیں سب سے زیادہ رنج رہا وہ یہی تھی کہ جہاں جاؤ آپ کو فرنگی زبان میں سلام دعا، خیر سگالی کے جملے سننے کو ملیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زبانیں سیکھنا غلط ہے یا کوئی زبان کسی دوسری سے اچھی یا بُری ہے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنی زبان اپنے ملک میں نہ بولی اور لکھی جائے گی تو اور کہاں ہو گی!
یوں تو آپ جس بھی گلی محلے یا سڑک سے گزریں آپ کو اردو میں جگہ جگہ لکھا نظر آئے گا:
“یہاں پیشاب کرنا منع ہے”
کوڑے کو آگ لگانا جُرم ہے”
“بیمثال شادی کورس” ۔۔۔” جرمن طبی دواخانہ”
” عامل ناگی کالیا بنگالی بابا”۔ ۔ ۔ اور نجانے کیا کیا!!
سنیاسی بابوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بابوں کے بھی اشتہارات دیواروں کی زینت بنے ہوتے ہیں لیکن جہاں کوئی کام کی بات لکھی ہو گی تو زبانِ غیر سے استفادہ کیا گیا ہوگا۔ ۔ ۔!۔


Read On

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان

1 تبصرہ (جات)۔
اردو ٹیک ڈاٹ نیٹ پر موجود میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے ایک مزاحیہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس تحریر پر کیے گئے تبصرے آپ اس ربط پہ پڑھ سکتے ہیں:۔

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط۔ ۔ ۱):۔

ملکِ عدم سے آنے والے جہاز میں سفر کرنا ہمارے لئے زندگی کے بعد کا سب سے اچھا سفر رہا۔ اپنی زندگی میں تو ہم نے بحری جہاز کے پانی پر تیرنے کے بارے میں سوچا تھا تو غش کھا گئے تھے کجا کہ اس دیوہیکل ہوائی جہاز میں اڑنا! خیر جیسے تیسے کر کے ٘منزل تک جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک بھلی سی خوش پوش خاتون نے ہمیں ایک سو پینتالیس نمبر کی نشست پہ بٹھا دیا۔ نشست کیا تھی میاں، ہمیں تو دہلیٔ مرحوم کا تخت یاد آ گیا۔ پھر وہی خاتون ہمارے لئے رنگ رنگ کے مشروب اور اشیائے خورد لے آئیں (لگتا تھا کہ جہاز ان کے مجازی خدا کا ہے جو اتنی خاطر مدارات کر رہی ہیں!)، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اس جہاز کی خادمہ ہیں جنہیں ‘فضائی میزبان’ کہا جاتا ہے۔ نشست کو دیکھ کر ہم سوچ رہے تھے کہ جب رعایا کے لئے ایسی نشست ہے تو باشاہ کا کیا عالم ہو گا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارے ضمیر سے بآوازِ بلند ایک ‘ زنانہ’ آواز آئی “پی آئیے! میں خوش آمدید”
ہائیں! یہ ہمارے ضمیر کی آواز اور صرف و نحو دونوں خراب ہو گئیں!! پی آئیے ۔ ۔ میں۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ارے میاں! الفاظ تو اردوئے معلیٰ کے ہی ہیں مگر متن کچھ واضع نہیں ہو رہا۔ ۔ ۔
ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھے صاحب نے ہماری حیران و پریشان صورت دیکھی اور کچھ پہچاننے والے انداز میں بولے “ارے! آپ توو وہ ڈرامے والے مرزا غالب کی طرح لگ رہے ہیں!”
“میاں! لگ رہے ہیں کیا مطلب؟ ہم مرزا اسد اللہ خاں غالب ہی ہیں۔” اب کے حیران ہونے کی باری ان کی تھی۔ پھر جب ہم نے سفر کے دوران انہیں تفصیلاً بتایا کہ ہم عدم آباد سے خصوصی دعوت پر اسلامی جمہوریہ پاکستان جا رہے ہیں تو وہ ہمیں سمجھاتے ہوئے بولے کہ یہ آواز لاؤڈ اسپیکر یعنی ‘ آلۂ مکبر الصوت’ سے آرہی ہے اور ہوائی میزبان کی ہے۔ہم نے ااس جملے کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پی آئیے نہیں پلکہ ‘پی۔آئی۔اے’ ہے، انگریزی زبان میں پاکستانی ہوئی کمپنی کا نام۔
خیر صاحبو! ہوئی کمپنی بہادر کا نام ‘پی۔آئی۔اے’ نہیں بلکہ ‘کھا پی کے آئیے’ ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں کا کھانا تو ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترا، نہ دہلی کے کلچے، نہ لاہوری چرغہ، اور نہ ہی بمبئی بریانی، کچھ بھی نہ ملا!
ہوائی جہاز میں ہم نے صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا جبکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا چند قدم کا فاصلہ ہم نے کوئی آدھے پہر میں طے کیا ہو گا۔ ہمارا ٹرنک، پان دان حتیٰ کہ اگالدان تک کھنگال کے رکھ دیا ان نیلی وردی والے سپاہیؤں نے! ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لئے کوئی نہ کوئی نمائندہ موجود ہو گا۔ باہر نکلے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارا پاکستان ہی آج واپس آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اتنا رش کہ الامان الحفیظ! نطر دوڑائی تو ایک شخص ہمارے نام کی تختی اٹھائے کھڑا نظر آیا۔ جلّی حروف اور خالص نستعلیق خط میں اپنا نام لکھا دیکھ کر سفر کی تکان دور ہو گئی۔

نوٹ: اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو تبصرہ ضرور کریں تا کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھا سکوں۔ اور اگر پسند نہیں آئی تو بھی تبصرہ ضرور کریں ورنہ میں مزید لکھنے سے ہرگز باز نہ آؤں گا!


Read On

ہر جگہ میرے چمکنے سے!۔

1 تبصرہ (جات)۔
پچھلے مہینے علامہ اقبالؒ کی برسی پر بہت سوچ بچار کے باوجود بھی میرے ذہن میں لکھنے کے لیے کچھ نہ آیا۔
آجکل نجی چینلوں پہ ایک کمرشل بہت چل رہی ہے جو اقبال کی مشہورِزمانہ نظم “بچے کی دعا” کے ایک مصرعے سے شروع ہوتی ہے۔ مزارِاقبال کے احاطے میں سفید اجلے لباس میں سکول کے بچے بلند آواز میں پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے۔ ۔۔ ۔
کچھ دن تک یہ اشتہارایسے ہی چلتا رہا یعنی صرف اس مصرعے تک۔ ۔ ہم سوچتے رہے کہ شاید کوئی نیا پروگرام ہے یا کلامِ اقبال پر کوئی نئی ویڈیو بنائی گئی ہے یا شایداقبال شناسی کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے عوام میں۔ ۔ لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا جب مکمل اشتہار دیکھا۔
یہ اشتہار ہے ” گائے سوپ” کا، جن کا پیغام ہے:
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
گائے سوپ اجلا بنائے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔!
ایک وہ زمانہ تھا (جنہیں میرا دوست “سچّا زمانہ” کہہ کر ‘ یاد ‘ کرتا ہے، حالانکہ عمر میں مجھ سے بھی چھوٹا ہے!) جب قوم کے قلب و نظر کی پاکیزگی کی لیے کلامِ اقبال کا سہارا لیا جاتاتھا، اور اب قوم کی ” چڈّی و بنیان” کی صفائی کے لیے۔ ۔ ۔!!
بڑھتی ہوئی اشتہاربازی(یا کمرشلائیزیشن) سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ کل کو کوئی نازنین اپنے لمبے گھنے بال سنوارتے ہوئے کسی شیمپو کے اشتہار میں کہے گی: “گیسوئے تابدار کو اور تابدار کر”۔ ۔ ۔ ۔۔!۔

نوٹ: یہ تحریراردو ٹیک پر میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے یہاں منتقل کی گئی ہے، اس پر کیے گئے تبصرے پڑھنے کے لیے آپ اس ربط پہ کلک کریں۔ تکلیف کے لیے بہت معزرت!۔
Read On