متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

طارق عزیز کی پنجابی شاعری -- انتخاب ۲

3 تبصرہ (جات)۔ Saturday, March 28, 2009
بچوں کیلئے ایک نظم

اپنے دِل وِچ بہت محبت
کڑیاں لئی نہ بھریئے
ہور وی کَم نے دُنیا اُتّے
اِکّو ای کَم نہ کریئے


اِک نظم فرزانہ لَئی

چھوٹیاں چھوٹیاں گلّاں اتّے
اَینویں نہ تو لَڑیا کر
ایڈیاں سوہنیاں اَکھاں دے وِچ
ہنجو نہ تو بھریا کر
جیہڑے کَم نئیں تیرے چَندا
تُو اوہ کَم نہ کریا کر


ھمزاد دا دُکھ -- طارق عزیز( )


Read On

فن نعت گوئی

0 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, March 10, 2009
فن نعت گوئی: عید میلاد النبی کے موقع پر خصوصی مضمون

March 9, 2009
اردو وائس آف امریکہ

نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے، دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔

اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں:

”نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ (ادبی نقوش صفحہ 284)۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باقی مضمون وائس آف امریکہ کی اردو سائٹ پر ملاحظہ کیجیئے۔
Read On

علامہ محمد اقبالؒ کی ایک فارسی نظم کا ترجمہ (محاورہ ما بین خدا و انساں)

2 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, March 4, 2009
محاورہ ما بین از خدا و انساں

(خدا)

جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تُو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تُو شمشیر و تِیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را

(انسان)

تُو شب آفریدی ،چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
( ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

اردو ترجمہ:
(خدا انسان سے گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے انسان!) میں نے تو (ساری ) دنیا کو ایک ہی طرح کے پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا(مگر) تو نے اِسے ایران، تاتار اور حبشہ میں تقسیم کر دیا۔ میں نے زمین سے خالص فولاد پیدا کیا تھا (مگر) تو نے اس سے تلوار، تِیر اور بندوق (جیسے مہلک ہتھیار) بنا لئے۔ تُو نے باغ کے پودوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑا بنایا اور گیت گانے والے پرندوں کے لئے پنجرہ بنا لیا۔
(اللہ تعالیٰ کی بات کے جواب میں انسان خدا سے کہتا ہے کہ اے خدا!)تُو نے رات بنائی تو میں نے (اُس رات کو روشن کرنے کے لئے) چراغ بنا لیا، تُو نے مٹی پیدا کی میں نے اس مٹی سے پیالہ بنا لیا۔ تُو نے بیاباں، پہاڑ اور جنگل پیدا کیے تو میں نے پھولوں کی کیاریاں، چمن اور باغ بنائے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہے، میں وہ ہوں جو زہر سے دوائے شفا بناتا ہے۔

Read On