متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

میں ضرور آؤں گا ــ فلسطین کے نام

4 تبصرہ (جات)۔ Sunday, January 25, 2009
ایک دن
ان لہو میں نہائے ہوئےبازوؤں پہ
نئے بال و پر آئیں گے
وقت کے ساتھ سب گھاؤ بھر جائیں گے
ان فضاؤں میں پھر اس پرندے کے نغمے بکھر جائیں گے
جو گرفتِ خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے سرخ پھولوں سے یہ کہ گیا
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروں کی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹاؤں گا
بادلوں کی فصیلیں چراتا ہو
امیں ضرور آؤں گا
میں ضرور آؤں گا۔ ۔ ۔
Read On

ایک تصویر، ایک سوچ

Tuesday, January 13, 2009

گورنمنٹ کالج لاہور ( جی سی یو) کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی راہداری میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ سال خوردہ دیواروں پر لگی فریم شدہ تصاویر ہیں جن میں سے ایک طرف تو ڈیپارٹمنٹ کے قیام (جس کا سنہ مجھے یاد نہیں !) سے اب تک کے تمام گریجویٹس کی گروپ فوٹوز ہیں جن میں سے اکثر اب فیکلٹی میں نظر آتے ہیں(لیکن ذرا بدلے حلیے کے ساتھ!) اور دوسری جانب کسی خاص شخصیت کی زندگی کے مختلف ادوار کی تصاویر لگی ہیں۔ بچپن، جوانی اور پھر بڑھاپے کی کئی تصاویر دیوار کی زینت ہیں۔
لیکن ایک تصویر جو ہر ناظر کو کچھ دیر کیلئے اپنی جانب ضرور متوجہ کرتی ہے وہ ایک گروپ فوٹو ہے جس میں ایک ہی طرح کا انگریزی لباس پہنے چھ، سات شخصیات کھڑی ہیں اور ان غیر ملکی شخصیات کے درمیان سیاہ شیروانی، سفید لٹھے کی شلوار، پاؤں میں تلّے والا کھسہ اور سر پہ خالصتاً پنجابی طرز کی 'اچّے شملے' والی پگ سجائے ایک مسکراتا چہرہ نظر آتا ہے۔ تصویر کے نیچے دی گئی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ یہ اور کوئی نہیں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جو ۱۹۷۹ ءکےنوبل انعام یافتہ حضرات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی اور کوئی بات میرے ذہن میں اس طرح محفوظ نہیں جیسے 'سلام گیلری' میں لگی
وہ تصویر!
ہر بار راہداری سےگزرتے ہوئے اس تصویر پر میری نظر ٹھہر جایا کرتی تھی اور عجیب سا فخر اور گداز محسوس ہوتا تھا اس 'اُچّے شملے' کو دیکھ کر۔ اُس وقت میں وہاں سے ایف ایس سی کر رہا تھا اور شاید اس سے پہلے میں نے کبھی عبدالسلام کا نام بھی نہ سنا تھا۔
وہیں معلوم ہوا کہ پروفیسر عبدالسلام نے اپنی لیبارٹری کا قیام اور تمام تحقیقی کام بیرونِ ملک کیا تھا۔ اس وقت ذہن میں آتا تھا کہ اچھے پاکستانی تھے یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی بجائے اٹلی میں بسیرا کر لیا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں واضح ہوئیں، کچھ سنی سنائی کچھ پڑھی پڑھائی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور اس وقت کی حکومت سےاختلافات اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پروہ بیرونِ ملک قیام پذیر رہے۔اُن کے جانے کے بعد کسی نے اُنہیں یاد نہ رکھا۔۔۔
جب اُنہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیاتو ہندوستان سمیت کئی ممالک سے اُنہیں اعزازی شہریت دینے کی پیشکش کی گئی لیکن اُنہوں نے پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ ہونے کے اعزاز کو ترجیح دی۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے اُنہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔ عوام کی جانب سے بھی ملے جلے جذبات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جن کو میں فی الحال دانستہ اِسکپ کر رہا ہوں۔
یہ سب کچھ لکھنے کی اصل وجہ عبدالسلام نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ وہ سوچ ہے جو ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی تصویر دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں پیدا ہوئی کہ قومی ہیروز کو ان کا اصل مقام نہ دینے کی وجہ مذہب یا عقائد نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور ہی معمّہ ہے۔ کیا پنجاب کی محبت، سر
حد کی جرأت، بلوچستان کی غیرت اور سندھ کی اُلفت سب مل کر بھی پاکستانی قوم میں وفا پیدا نہیں کر سکے؟ کیا ایسا ہی ہے؟؟
Read On