متوجہ ہوں؛ تبدیلئ پتہ

السلام علیکم
مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا بلاگ یہاں سے شفٹ ہو گیا ہے اور اب آپ اس پتے پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ

نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!۔

0 تبصرہ (جات)۔ Thursday, December 31, 2009
نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
یاقوت ریزے
تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
مگر میں
(ادھورے سفر کا مسافر)
اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
فِگار انگلیاں
اپنی بے مائیگی
اپنے ہونٹوں کے نیلے اُفق پہ سجائے
دُعا کر رہا ہوں
کہ تُو مسکرائے!
جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
اُبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!

کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
نہ مسافر کوئی
بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
کوئی اہلِ قلم
مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
کوئی دریُوزہ گر
کیوں پِھرے در بدر؟

صبحِ اول کے سورج!
دُعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
مرے گُنگ لفظوں
مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
ذائقہ بخش دے!
راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!
میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے،
شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
دُخترِ دشت کو دُودھیا کُہر کی اک رِدا بخش دے!

محسن نقویؔ
Read On

کھٹا میٹھا

2 تبصرہ (جات)۔ Thursday, October 15, 2009
Align Rightبہت دن ہوئے کچھ پوسٹ نہیں کر سکا۔ ۔ ۔ کچھ تصاویر ہیں پیارے پاکستان کے پیارے لوگوں کی۔ ۔ ۔


یہ پہلی تصویر ہماری قوم کی ایک ترقی پسند " سوزوکی " کی پشت پہ لکھا ایک خوبصورت فلمی ڈائلاگ ہے۔ ۔






یہ تصویر (نیچے) پٹرول کی بڑھتی ہوئی کھپت کے باعث، آمد و رفت کے ایک قدیمی ذریعہ کو پروموٹ کر رہی ہے اور اس میں خاص پات یہ بتائی گئی ہے کہ جو پیسہ آپ پٹرول سے بچائیں گے، اس کو آپ " مِس کالیں" مارنےجیسے ضروری کام میں استعمال کر سکتے ہیں!!۔



یہ تصویر پاکستان کی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں آگے بڑھنے کیلئے ایک نہائت اہم قدم کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ عام آدمی کی سہولت کیلئے اب کمپیوٹر تول کر بھی خریدے جا سکتے ہیں تا کہ آپ کو پینٹئم 4 کی قیمت میں اصلی اور خالص پینٹئم 4 ہی ملے۔۔۔۔ یہ آفر یقیناً محدود مدت کیلئے ہو گی، اور یقین جانئے یہ بہت جائز قیمت ہے۔۔۔اتنے میں تو آجکل آٹا بھی نہیں مل رہا۔ ۔۔ ۔ میں تو 15،20 کلو خریدنے کا ارادہ کر رہا ہوں ۔۔ ۔ !۔




یہ تصویر پاکستان میں فیشن کے بڑھتے ہوئے اثرات اور عام آدمی میں جدید فیشن کی دوڑ میں شامل ہونے کی لگن کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور " ہیڈ ویئر" بنانے والی انڈسٹری کیلئے بھی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
یا یہ محض ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ بندہ اس مین الٹا گر گیا ہو!۔۔۔۔




اور یہ والی تصویر پاکستانی عوام کی طرف سے تمام " طاغوتی" طاقتوں، جو کہ میلی آنکھ اٹھا کر ہماری طرف دیکھنے کی غلطی نہیں بلکہ غلطیاں کرتے ہیں، ایک واضح تنبیہہ ہے۔ ۔ ۔ارے ظالمو! تم ایک ایسی قوم سے پنگا لے رہے ہو جو " ایٹم بم سری پائے" جیسے خطرناک اور توانائی بخش " نیوکلر وار ہیڈ" روزانہ ناشتے میں ڈکار جاتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔!۔






Read On

معصومیت

3 تبصرہ (جات)۔ Saturday, October 3, 2009
آج کل اگر بچوں کو پرانی کہانیاں سنائی جائیں تو ان کو کسی بات کا یقین نہیں آتا۔ طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں، یہ کیسے ہوا؟ وہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اسے کیسے پتا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ایک ہم تھے کہ مجال ہے جو یہ بھی پوچھ لیں کہ یہ " پودنے " کے کان میں اتنے سارے جانور کیسے آ سکتے ہیں اور یہ " پودنا" ہوتا کیا ہے!
میں نے اپنے بھتیجے سے یہ کہہ دیا کہ یہ جو کارٹون میں روبوٹ دکھائے جاتے ہیں ، یہ اصل میں ایسے نہیں ہو تے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ تو ٹونٹی سیکنڈ سینچری کے روبوٹ ہیں، جب ہم وہاں جائیں گے تو ایسے ہی ہوں گے!!
اس کی عمر محض ساڑھے پانچ سال ہے اور اسے یہ لفظ تو پتا ہے لیکن اس کا مطلب بالکل نہیں پتا۔ ۔ ۔۔ ہاں، جیسے اس نے یہ بات بتائی ہے اس سے اس کے اس بات پہ یقین میں کوئی شک ظاہر نہیں ہوتا۔
الف لیلیٰ میں الہٰ دین کے قالین کے بارے میں سوال اٹھایا گیا کہ اس کی سپیڈ یعنی رفتار کتنی تھی!۔ ۔ ۔ ۔
کیا عمرو عیار کی زنبیل میں صوفہ سیٹ، چاچو کی گاڑی، فریج اور ہوائی جہاز آ سکتے تھے؟۔ ۔ ۔ ۔
یہ دیو کیا ہوتا ہے؟ کتنا بڑا ہوتا ہے اور کیا اس نے الہٰ دین پہ میزائل سے حملہ کیا تھا؟۔ ۔ ۔ ۔
وہ تو پانی کی بوتل بھی وہ پسند کرتے ہیں جس میں بٹن دبانے سے ڈھکن کھلتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ !!


Read On

The Terminal اردو سب ٹائیٹلز

5 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, September 9, 2009
میں کافی عرصے سے فلم دی ٹرمینل کے اردو سب ٹائیٹلز بنانے کا کام شروع کئے ہوئے تھا لیکن مناسب وقت نہ دینے کی وجہ سے کام مکمل نہیں ہو رہا تھا۔ پورے ایک مہینے کے وقفے کے بعد میں دوبارہ کمر کس کے میدان میں اترا اور دو ہی دنوں میں بقیہ کام تمام کر لیا۔ اردو سب ٹائیٹلز لکھنے کا شوق مجھے عمار ابنِ ضیاٗ کے ٹیکن فلم کے ٹائیٹلز دیکھ کر پیدا ہوا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کام بہت مشکل ہو گا اور اس میں کوئی پیچیدہ تکنیکیات شامل ہوں گی یا کوئی خاص قسم کا سافٹویئر درکار ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، جہاں تک انگریزی سب ٹائیٹلز کی فائل کے مطابق اردو ترجمہ کرنے کی بات ہے تو یہ کوئی بھی آرام سے کر سکتا ہے(بہت ہی زیادہ آرام آرام سے، میری طرح!!) ، بس ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ مستقل مزاج افراد کیلئے خصوصی آسانی ہو گی۔
اس کام میں عمار بھائی نے میری بہت مدد کی ہے جس کیلئے میں نہایت مشکور ہوں۔
اب جبکہ یہ کام مکمل ہو گیا ہے گو کہ اس میں کچھ کمیاں اور کوتاہیاں باقی ہیں لیکن میں نے فی الحال ان کو خاطر میں نہیں لایا اور سب ٹائیٹلز کو اپلوڈ کر دیا ہے، میں نے اپنے گھر میں اور چند ایک دوستوں کو بتایا تو ایک ہی سوال میرا منتظر تھا "اس سے تمہیں کیا فائدہ ہو ا؟"۔۔۔۔۔۔۔ یا " اس سے تمہیں کیا ملے گا؟"۔۔۔۔۔" اتنا وقت ضایع کیا، کچھ اور ہی کر لیتے!"۔۔۔۔۔۔
مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں پتا۔۔۔۔ آپ بتائیے!۔۔۔

خیر یہ تو بس ویسے ہی میں نے بر سبیل التذکرہ لکھ دیا ہے۔۔۔

فلم کا تھوڑا سا تعارف میں نے اردو محفل میں لکھا ہے، وہی چھاپ دیتا ہوں:
"یہ فلم ٹام ہینکس کی ہے جو کہ ایک مشہور اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکار ہیں۔ فلم کے ہدایت کار سٹیون شپیلبرگ ہیں۔
فلم کا مرکزی کردار (ٹام ہینکس) ایک ایسے وقت میں امریکی ہوائی اڈے پر اترتا ہے جب اس کا ملک ‘کراکوژیہ’ اندرونی بغاوت کا شکار ہوتا ہے اور اس کے امریکہ پہنچنے سے پہلے ہی باغی شبخون مار کر حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کے ملک کا وجود اب نہیں رہا، لہذا اس کی شہریت اب مشکوک ہو چکی ہے اسلئے اب اسے نیویارک میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ اور ملکی حالات کی وجہ سے اسے ڈی پورٹ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اسے عارضی طور پہ اسی ہوائی اڈے کے بین الاقوامی لاؤنج میں رکنا ہو گا تاوقتیکہ معاملہ اوکے نہ ہو جائے۔ ایک ایسا شخص جو انگریزی زبان سے نا آشنا ہے، لوگوں کے ہجوم میں تنہا رہ جاتا ہے۔"۔۔۔

مزید معلومات یہاں پہ دیکھی جا سکتی ہیں۔

فلم کی ٹورنٹ فائل یہاں سے اتاری کی جا سکتی ہے اور اردو سب ٹائیٹلز یہاں سے۔

امید ہے یہ کوشش آپ سبکو پسند آئے گی۔

Read On

کثیر الشخصیاتی عارضہ

0 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, September 8, 2009
کثیر الشخصیاتی عارضہ یعنی Multiple Personality Disorder کے متعلق شاید آپ نے سنا ہو، کم از کم وہ خواتین و حضرات جو ہالی وڈ کی فلموں کا ذوق رکھتے ہیں وہ ضرور واقف ہوں گے کیونکہ کئی فلمیں اس موضوع پر بنائی جا چکی ہیں۔ جیسا کہ یہ والی اور یہ والی۔
یہ ایک ذہنی اور نفسیاتی بیماری ہے اور جیسا کہ نام سے ہی حاضر ہے کہ اس میں انسان کی شخصیت مختلف حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور وہ ایک شخصیت کی بجائے کئی شخصیات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ شخصیات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں اور انسان کسی ایک یا زیادہ شخصیات کے اثر میں رہتا ہے۔ ان مختلف شخصیات کو انسان کا ‘ آلٹر’ (Alter) یعنی ‘متبادل’ کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، اگر دیکھا جائے تو ہم بحیثیت قوم اصل میں اسی عارضے کا شکار ہیں۔ ہماری شناخت بھی کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ کبھی ہم مسلمان ہوتے ہیں، کبھی پاکستانی، کبھی سندھی، پنجابی، بلوچی یا پٹھان ہوتے ہیں، کبھی شدت پسندی غالب آ جاتی ہے تو کبھی روشن خیالی، اور بعض اوقات ہم کچھ بھی نہیں ہوتے!
کچھ دن پہلے میں نے ایک انگریزی ناول نگار سڈنی شیلڈن کا ایک ناول پڑھا جو کہ اسی موضوع پر لکھا گیا ہے۔ اس ناول کی ہیروئن بھی کثیرالشخصیاتی عارضے میں مبتلا ہوتی ہے اور کئی متصادم شخصیات کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ ان منفی شخصیات کے زیرِ اثر وہ کئی سنگین جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔ اس کے علاج کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ان تمام ‘متبادلوں’ کو آمنے سامنے لایا جائے اور ان کے درمیان مباحثہ ہو اور ان سب میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تا کہ کئی شدت پسند شخصیات کی بجائے ایک متوازن اور مکمل شخصیت کا ظہور ہو۔
یہی ہمارا بھی علاج ہے۔
Read On

گرینڈ کوئز

0 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, July 15, 2009
یار بھلا اتنا مشکل کوئز بھی کوئی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ؟ سر کو بھی پتا ہے کہ اس ایک ٹاپک کے لئے ایک دن تو کیا پوری زندگی کی تیاری بھی کم ہے!!
صحیح کہہ رہے ہو، چلو سارا نہ سہی، کوئی ایک دو سوال تو بتا ہی دینے چاہئیں۔ ۔ ۔ بندہ انہی کو رٹّ لے۔
دوستو! ۔ ۔ ۔۔ ۔ پہلے میں اپنا سانس درست کر لوں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک خوشخبری ہے ۔ ۔ ۔
کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ کیا سر نے کوئز کینسل کر دیا۔ ۔ ۔ ؟!
ارے نہیں یار! ایک سینئر نے( گیس ) guess بتایا ہے کل کے کوئز کے بارے میں۔
جلدی بتا یار۔ ۔۔ ۔ چلو کچھ تو آسرا ہوا۔ ۔ ۔
میرے بھائی گیس ہے، کوئی پکی بات نہیں ہے۔ ۔۔ !
خیر اب اسی کا رٹّا لگا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کچھ تو جواب دینے کے قابل ہو ہی جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا سوال: کیا آپ نے اپنے ربّ کے حکم کے مطابق، اس کی رضا و ثنا کے لئے نماز قائم کی؟
یہ۔ ۔ ۔ یہ سوال ۔ ۔ ۔یہ سوال تو مجھے پتا ہی نن۔ ۔ ن۔ ۔ ۔
اس سوال کا تو مجھے پتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ شروع سے ہی پتا تھا۔ ۔ ۔ تمام مخلوق سے سینئر خاتم المرسلین محمد مصطفیٰ ﷺ نے (گیس ) نہیں بلکہ یقینی بتا دیا تھا کہ سوالنامے کا پہلا سوال یہی ہو گا ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا ساری زندگی میں یہ ایک معلوم سوال بھی تیار نہیں ہو سکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Read On

یہ وقت بھی گزر جائے گا

5 تبصرہ (جات)۔ Saturday, July 4, 2009
کل رات ہم سب دوست کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے اور چائے کا انتظار کر رہے تھے۔ بات تو کچھ اور ہی چل رہی تھی لیکن ہمارے ایک سینئر دوست عرف بھائی جان نے ایک قصّہ سنایا، آپ بھی سنئے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش صفت بزرگ سے ہوئی، بزرگ بہت نیک اور پرہیزگار تھے۔ بادشاہ اُن سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں اس نے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز ، تعویز، وظیفہ وغیرہ لکھ کر دیں جو انتہائی مشکل میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھا تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اُسی وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی انتہائی مشکل میں۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی حکومت کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل میں ایک غار میں چھپ گیا۔ دشمن کے فوجی اس کے پیچھے تھے اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا، اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس ہی تھا۔ سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اسے قریب آتی سنائی دے رہی تھی، اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب اس نے وہ کاغذ کھولا تو اس پر لکھا تھا " یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔!
بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے، کوئی اسمِ اعظم ہوتا یا کوئی سلیمانی ورد!۔ ۔ ۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بارہ پڑھا۔ ۔۔ ۔ کچھ دیر تو بادشاہ سوچتا رہا، غور کرتا رہا کہ کیا کرے پھر آخر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے، اس نے مقابلہ کیا ا ور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کس طرح کسی دوسرے ملک میں گیا، وہاں اس نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا، اسے ہتھیاروں سے لیس کیا اور آخر کار ایک وقت آیا کہ اس نے اپنا ملک واپس لے لیا اور پھر سے اپنے تخت پہ جلوہ نشیں ہوا۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پہ اور سلطنت پہ تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ آیا کہ " یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔ ۔ ۔ ۔!!

Read On

بَن کے بستر بوریا

4 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, July 1, 2009
بَن کے بستر بوریا
اسی تے چلے کوریا
بجلی ایتھے رہندی نئیں
پوری کِسے دی پیندی نئیں
ہر کوئی ایتھے رو ریا
اسی تے چلے کوریا

ہر کوئی ایتھے ڈردا اے
نالے پُکھا مَردا اے
پینڈو ہووے یا لہوریا
بن کے بستر بوریا
اسی تے چلے کوریا

تُسی وی بَنو بستر بوریا
تے چلو ساڈے نال کوریا!

Read On

مائیکل جیکسن کی یاد میں

11 تبصرہ (جات)۔ Sunday, June 28, 2009
مائیکل جیکسن کا ستارہ کئی دہائیاں شہرت کے آسمان پر جگمگانے کے بعد آخر کار غروب ہو گیا اور دنیا بھر میں وہ اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ لیکن میرے خیال میں مائیکل کیلئے سب سے زیادہ اعزاز کی بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سندھ اسمبلی میں اُن کے "غم" میں ایک منٹ کی خاموشی کی گئی اور ان کی "شخصیت" کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا!!
ظاہر ہے ، مائیکل جیکسن صاحب نے پاکستانی عوام کیلئے اتنے سارے نغمات جو گائے تھے خصوصاً ان کے "بلی جینز" اور " ڈینجرس" نے ہماری عوام میں ایک نیا جزبہ اور روح پھونک دی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
کیا ہماری صوبائی اسمبلی نے بجا طور پر ایک ایسی قوم کی نمائندگی کی ہے جس کے ۱۸ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہیں، جسے آئے دن اندرونی و بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے، جہاں پانی و بجلی کا شدید بحران ہے اور جس کی فوج کے جوان دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے روز جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ اگر ان تمام پاکستانیوں کیلئے جو پچھلے ایک سال میں مختلف وجوہات کا شکار ہو کر جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ہیں، ایک ایک منٹ کی خاموشی کی جاتی تو اسمبلی کا سیشن نہائت پُر امن طریقے سے چپ چاپ ختم ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔!!
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے مشہور پاکستانی غزل گائکہ اقبال بانو کا انتقال ہوا، ہماری "entertainment loving nation" کی نمائندہ اسمبلی نے ان کی یاد میں خاموشی اختیار کیوں نہ کی؟
مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ مائیکل جیکسن ایک بڑا گلوکار تھا اور پاپ موسیقی کی دنیا میں اس کا نام ایک بانی کی حیثیت سے لیا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ کیا ہماری اسمبلی ہماری قوم کی ترجمانی کر رہی ہے؟ کیا پاکستان سے مائیکل جیکسن کا کوئی بھی قومی تعلق ہے سوائے اس کے کہ وہ امریکی تھا(اگر یہ تعلق کی وضاحت ہے تو!)۔ بے نظیر بھٹو شہید کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے تین منٹ کی خاموشی قومی سطح پر اختیار کی گئی۔ محترمہ ایک قومی و سیاسی لیڈر تھیں، پاکستان کی سابقہ وزیر اعظم تھیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک پاکستانی تھیں۔۔ ۔ ۔ کیا مائیکل جیکسن کو کسی بھی فریم میں فِٹ کیا جا سکتا ہے جس کے باعث اسے اس قومی " اعزاز" سے نوازا گیا۔ ۔ ۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے مجھ جیسوں کو یہ ہی سمجھ نہیں آتا کہ اعزاز کیوں دیا جاتا ہے اور کس کو دیا جاتا ہے۔ ۔۔ ۔!!!
Read On

حقّہ ٹھنڈا ہونے تک

4 تبصرہ (جات)۔ Friday, June 26, 2009
آجکل پاکستان میں ہر بات ایک ایشو(issue) بن جاتی ہے، اور اتنے ایشو بنتے ہیں کہ ایشو بننا بھی کوئی ایشو نہیں رہتا، یعنی کہ
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
عوام کے لیے اب کوئی بڑے سے بڑا واقعہ بھی بس اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ حقّہ ٹھنڈا ہونے تک اس پہ بات ہو سکتی ہے یا نہیں!
اس بات کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب میں اپنے ہاسٹل سے تعطیلات میں واپس لالہ موسیٰ آتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ ہم وہاں جن خبروں کو انٹرنیٹ یا کیبل پہ دیکھ کر پریشان ہو رہے ہوتے ہیں ، یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ یہاں بس حقّہ ٹھنڈا ہونے تک ہی بات کی جا تی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔
ویسے بھی آجکل یہاں کے لوگوں میں سیاسی "بالیدگی" اور ایوانوں کے داؤ پیچ کا شعور خود بخود ہی پیدا ہو گیا ہے، اور کیوں نہ ہو آخر وفاقی وزیر برائے " پتا نہیں کیا کیا" جناب کائرہ صاحب اور صوبائی وزیرِ خزانہ کا تعلق جو یہاں سے ہے اور پُر رونق ڈیرے خوب ڈورے ڈال رہے ہیں لوگوں کے ذہنوں پر!
معافی چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ماحول کا اثر ہے ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں: "بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں!"
چلیے بات بدلتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آجکل ہر بات کا تانا بانا سیاسی دھاگوں سے ہی بُنا جا رہا ہے۔ (گو کہ یہ زیادہ مضبوط نہیں ہوتے مگر پھر بھی!) اگر میں یہاں(لالہ موسیٰ میں) کوئی بھی بات حکومت کے خلاف کہہ دوں تو فوراً بھائیوں یا دوستوں میں سے کوئی نہ کوئی اس کی تردید ضرور کر دے گا اور مجھے سیاسی مصلحتوں اور حکومتی مجبوریوں پر لیکچر دے دے گا۔ "بھیا! یہ سیاست کی بوالعجیبیاں ہیں، تم نہیں سمجھو گے!"
خیر صاحب! ہم سمجھنا بھی نہیں چاہتے، ہم لنڈورے ہی بھلے!!۔

Read On

کچھ انجینئرنگ کے بارے میں

10 تبصرہ (جات)۔ Sunday, May 24, 2009
(مختصر مختصر سے منتقل شدہ)

“انجینئرنگ” دو الفاظ پہ مشتمل ایک اصطلاح ہے۔
‘انجن’ اور ‘رِنگ’ ؛ انجن کے بارے میں سب لوگ جانتے ہی ہوں گےکہ یہ ایک ایسی چلتی پھرتی شے ہے جو “چھُک چھُک ” کی رٹّی رٹّائی آواز نکالتا آگے یا پیچھےکی سمت میں رواں رہتا ہے۔
رِنگ ایک ایسی گول شے ہے جس کے سِرّے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ یوں اس لفظ کا مطلب نکلتا ہے کہ انجینئرنگ کسی انجن یا اس سے مشابہ (یعنی کسی بھی چلتی پھرتی!) چیز کا ایک گول دائرے (یعنی رِنگ) میں چکر لگائے جانا اور رٹّی رٹّائی آوازیں نکالے جانے کا نام ہے۔۔۔۔
مندرجہ بالا تفصیل سے انجینئرنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے کہ انجینئرنگ کرنے والے بھی گویا ایک آواگونی چکر یعنی رِنگ میں مقیّد ہیں جو پہلا سیشنل ، دوسرا سیشنل اور ٹرمینل یعنی فائنل امتحان ( یونیورسٹی طلباء خصوصاً کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے ) کے تین تکلیف دہ ادوار پر مشتمل ہے۔ (بہت سے تعلیمی اداروں میں دو ادوار پر مشتمل “چکر” بھی رائج ہے!) یہ مخلوق یعنی انجینئر بھی انجن کی طرح اپنی رِنگ نما پٹری پر کولہو کے بیل کی مانند، ان تین یا دو اسٹیشنوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔ غصّے سے دھواں دھواں ہونا اور احتجاجاً ایک ہی طرح کی آوازیں نکالنا بھی ان کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔لیکن انجن کی طرح ان کے شور سے بھی کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔ اس انجن سے منسلک ریل (یعنی بستہ یا تھیلے) میں کئی کورس کی کتابیں سواریوں کی صورت اترتی چڑھتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ یوں جب یہ انجن کم و بیش ( جس میں بیشی کے امکانات زیادہ ہیں!) چار سال لگاتار رِنگ میں گھومتے رہنے کے بعد تھک یعنی “ریٹائر” ہو جاتا ہے تو اس کے آخر میں حرف “ر” کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو اسکی جسمانی حالت سے زیادہ ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے۔ ۔ یعنی کہ اب وہ انجن(ر) بن گیا ہے (جیسا کہ روایتاً تھک جانے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے!) ۔ ۔ ۔ اور اب اگر اس لفظ اور ‘اعزاز’ کو ملا کر پڑھیں گے تو عرفِ عام میں “انجینئر” کہلائے گا۔
Read On

اردو ہے جس کا نام

4 تبصرہ (جات)۔ Thursday, May 21, 2009
۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ)
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

لو جی! یہ کیا بات کر دی؟ اردو سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ ۔ ۔ ہمارے پاکستان میں تو بچہ بچہ اردو بولتا ہے!۔ ۔ ۔ اور تواور میرا ڈیڑھ سال کابھتیجا بھی بہت شُستہ اردو بولتا ہے! بس ذرا ‘س’، ‘ش’ اور ‘ذ’،’ز’،’ج’،’ظ’ اور ‘ض’ میں تمیز نہیں کر سکتا ٹھیک سے۔ ۔ ۔!
خیر یہ تو ‘ ایکسٹرا پرافیشنسی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی اردو سیکھنے سکھانے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو قصہ اس اجمال کا کچھ یوں ہے کہ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب تقریباً سات سال پہلے وطن عزیز سے پردیس گئے تو وہاں سے واپسی پر ایک عدد ولندیزی خاتون کو ہماری بھابھی بنا کر پاکستان لائے [سچے اور پکے پاکستانی ہونے کی نشانی۔] اب پاکستانیوں کی غیر ملکی زبان سیکھنے کی “لرنِنگ کروّ”(سیکھنے کی صلاحیت کا گراف) کچھ زیادہ ہی ہے لہٰذہ ہوا یہ کہ وہ تو اردو میں بس “سلام لیکم” ، “کی حال اے؟” یا “ٹھیک او ” ہی سیکھ سکیں لیکن ہم کافی استفادہ کر گئے!
یوں بھی جناب اردو کی تو کیا ہی بات ہے، منہ اور حلق کا شائد ہی کوئی حصہ ہو گا جہاں حروفِ تہجی میں سے کسی کی رسائی نہ ہو۔ ! اور سونے پہ سہاگہ بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب نے” چنگی طرح” سمجھا بجھا کر ش، ق درست کروائے تھے۔ اب بیچارے جرمن بولنےوالوں کا کیا قصور کہ ان کی زبان میں ۲۶ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ (کچھ واول حروف بھی ہیں ) حروف جتنی لچک ہے!!
جن میں سے کچھ تو ایک سی آوازیں نکال کے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ۔ اب باقی بچنے والے بھی اردو کی ‘ر’، ‘ج’، ‘چ’، ‘ز’، ‘ذ’، اور تو اور ‘ی’ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ ہاں ، لفظ” نہیں ” کا پنجابی ہم پلہ لفظ ” نئین” موجود ہے اور مطلب بھی نفی ہی ہے۔ ۔ ۔یوں کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ وہ “اِک، دو، تِن” کرنا تو سیکھ ہی جاتے ہیں۔ ۔
بقول غیر اردو یافتہ افراد کے سب سے بڑی مشکل اردو عربی یا فارسی سیکھنے کی یہ ہے کہ ان کے حروف مفرد حالت میں اور ہوتے ہیں جبکہ الفاظ میں ان کا رنگ تو خیر نہیں ‘انگ’ اور ڈھنگ ضرور بدل جاتا ہے! اب ‘ج’ کو ہی لیجیے، تنہائی میں تو پیٹ نکال لیتی ہے، جیسے ہی کوئی دوسرا حرف دیکھتی ہے ایسے سمٹ جاتی کہ محض نقطہ ہی رہ جاتا ہے اور ‘ر’ تو مزید “گِر” جاتی ہے!
اسی طرح باقی حروف بھی عجیب و غریب ہیئت ِظاہری و باطنی رکھتے ہیں۔ اب ہماری بھابھی صاحبہ کو اردو سیکھنے کا شوق پھر سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی رومن اردو میں اردو سیکھنے کی کتاب ہونی چاہئے، تا کہ وہ الفاظ کو پڑھ سکیں ناکہ ان کی اشکال میں ہی گم ہو جائیں۔ اب انہیں میں یہ کیسے بتاؤں کہ میں نے تو آج تک کوئی “اردو سیکھیں” نامی کتاب عربی رسم الخط میں نہیں دیکھی تو رومن میں کہاں سے لاؤں! یہاں”انگریزی سیکھیں، صرف ایک ہفتے میں”، “انگلش ٹیوٹر”، “انگلش گرو” ،”انگریزی بولیں ،امریکیوں کی طرح” وغیرہ، تو ہر شہر کے ‘اردو بازار’ میں با آسانی ملتی ہیں لیکن اردو کی خرید و فروخت کا بہرحال کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ۔ ۔ ۔!!

خصوصی نوٹ: اس مضمون میں اگر کوئی اردو املاء کی غلطی پائی جائے تو اسے کلیدی تختے کے لے آؤٹ کی غلطی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس “رومن اردو” سیکھنے کا کوئی نسخہ موجود ہو تو ضرور بتائے، اردو سیکھنا سکھانا ایک کارِخیر ہے خواہ رومی ہو کہ رازی!

Read On

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔

2 تبصرہ (جات)۔
۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ) اس تحریر پہ کیے گئے تبصرے پڑھنے کیلئے ذیل کے ربط پہ جائیں۔

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط ۔ ۲)۔

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمارا میزبان ایک نوجوان شخص تھا، انگریزی طرز کے جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ داڑھی مونچھ سے بے نیاز چہرہ بہرحال دیسی تھا۔ علیک سلیک ہوئی، خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
” ویلکم مرزا صاحب! سفر کیسا رہا آپکا؟ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟ آپکو زیادہ ویٹ تو نہیں کرنا پڑا۔”
ہم خاموش رہے کہ بات کی سمجھ نہیں آئی ٹھیک سے۔
“ایکچوئلی آجکل سیکیورٹی کی وجہ سے زیادہ چیکنگ ہو رہی ہے۔” وہ بولتے رہے۔
“ہائیں! کس کی وجہ سے کون ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !”
“لگتا ہے میں ایکسائٹمنٹ میں زیادہ بول رہا ہوں۔”
” نہیں میاں! بول تو زیادہ نہیں رہے، پر بول کیا رہے ہو یہ سمجھ نہیں آرہا ہمیں!”
“اوہ! آئی ایم سوری۔ ۔ ۔لیکن کیوں؟”
“میاں ! ذرا صاف اور صرف اردو بولو تا کہ مجھ غریب کے بھی کچھ پلّے پڑے۔ہم زبانِ غیر سے قطعی ناا ٓشنا ہیں۔”
” میں معذرت خواہ ہوں مرزا صاحب! دراصل یہاں ایسے بولنا اردو ہی کہلاتا ہے۔ لیکن میں آیندہ خیا ل رکھوں گا کہ انگریزی الفاظ نہ استعمال کروں۔”
خیر صاحبو! آگے بڑھتے ہیں کہ ابھی تو آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اپنے رہنما کے ساتھ ہم ایک لمبی سی موٹر میں بیٹھ کر قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر کی دنیا بھی اردو زبان کی طرح رنگ برنگی نظر آئی۔ نہ کوئی دیسی نظر آ رہا تھا نہ ہی ولایتی، بس سب کچھ ‘آدھا تیتر آدھا بٹیر ‘ لگ رہا تھا!
ہمارے راہنما کا نام تو تھا سردار محمد جبران نواز خان لیکن بقول اسکے سب اسے پیار سے “جِبز” کہتے ہیں!”میاں ! ہم تمہیں جِبز تو نہیں خیر صرف جبران کہہ لیتے ہیں۔” جبران میاں نے بتایا کہ ہمارے رہنے کا انتظام و انصرام ایک تعلیمی ادارے کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ادارے کا نام انگریزی میں تھا جو کہ ضعفِ پیری کے باعث ہم بھول گئے ہیں، ہاں! ایک اصطلاح ہمیں یاد ہے جو اس ادارے کے نام میں تھی ” انفارمیشن ٹیکنالوجی” اور اس اصطلاح کا اردو مترادف جبران میاں کو معلوم نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں! خیر اس نے ہمیں اتنا بتا دیا کہ یہ آجکل کی خاصی اہم اصطلاح ہے اور یہ معلوماتِ عامہ کے جدید نظام کی عام لوگوں تک رسائی اور اس کے عام زندگی میں عمل دخل کے متعلق جو تکنیکی عوامل کار فرما ہیں، ان کے بارے میں یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تشریح ہم نے خود اپنے آپ کو سمجھانے کے واسطے وضع کی ہے وگرنہ جبران میاں کی وضاحت تو خاصی غیرواضح تھی!
موٹر ایک بلند و بالا عمارت کے سامنے جا رکی جس کی پیشانی پہ لکھا تھا ” ہوٹل موتی محل”، عمارت کے اندر داخل ہوئے تو واقعی کسی محل کا گمان ہونے لگا۔ ماحول خاصا امیرانہ اور خوابناک سا تھا۔ استقبالیہ، جسے اردو میں ‘ ریسپشن’ لکھا جاتا ہے، پر ایک خاتون نے بڑے رکھ رکھاؤ سے ‘پاکستانی اردو ‘ میں بات کی ۔ پہلے سےہماری لئے محفوظ شدہ کمرے کی چابی میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے خاتون خوشدلی سے مسکرائیں اور گویا ہوئیں ” ویلکم ٹو موتی محل”۔ ۔ ۔ اتنی اردو ہم اب تک تو جان ہی گئے تھے۔
کمرے کی طرف جاتے ہوئے ہم نے جبران میاں سے پوچھا کہ بھائی! یہ جگہ جگہ ” رُوم” کیوں لکھا نظر آ رہا ہے؟ کیا ملکِ روم سے کوئی نسبت ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ویٹنگ روم، باتھ روم، اور تو اور یہ نماز رُوم۔ ۔ ۔کیا معنی!
بولے مرزا صاحب روم مطلب کمرہ ، انگریزی میں کمرے کو کہتے ہیں، ہم نے کہا میاں! انگریزی میں توہر تختی پہ ساتھ لکھا ہوتا ہے پھر یہ اردو ترجمے میں بھی دُم چھلہ ساتھ لگانے کی کیا تُک ہے! ظاہر ہے اس کا جواب اُس بیچارے کے پاس نہیں تھا۔ اور ہوتا بھی کیسے، پاکستان میں اپنے قیام کے دوران جس چیز کا ہمیں سب سے زیادہ رنج رہا وہ یہی تھی کہ جہاں جاؤ آپ کو فرنگی زبان میں سلام دعا، خیر سگالی کے جملے سننے کو ملیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زبانیں سیکھنا غلط ہے یا کوئی زبان کسی دوسری سے اچھی یا بُری ہے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنی زبان اپنے ملک میں نہ بولی اور لکھی جائے گی تو اور کہاں ہو گی!
یوں تو آپ جس بھی گلی محلے یا سڑک سے گزریں آپ کو اردو میں جگہ جگہ لکھا نظر آئے گا:
“یہاں پیشاب کرنا منع ہے”
کوڑے کو آگ لگانا جُرم ہے”
“بیمثال شادی کورس” ۔۔۔” جرمن طبی دواخانہ”
” عامل ناگی کالیا بنگالی بابا”۔ ۔ ۔ اور نجانے کیا کیا!!
سنیاسی بابوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بابوں کے بھی اشتہارات دیواروں کی زینت بنے ہوتے ہیں لیکن جہاں کوئی کام کی بات لکھی ہو گی تو زبانِ غیر سے استفادہ کیا گیا ہوگا۔ ۔ ۔!۔


Read On

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان

1 تبصرہ (جات)۔
اردو ٹیک ڈاٹ نیٹ پر موجود میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے ایک مزاحیہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس تحریر پر کیے گئے تبصرے آپ اس ربط پہ پڑھ سکتے ہیں:۔

عدم آباد کے مہمان- - غالب اِن پاکستان (قسط۔ ۔ ۱):۔

ملکِ عدم سے آنے والے جہاز میں سفر کرنا ہمارے لئے زندگی کے بعد کا سب سے اچھا سفر رہا۔ اپنی زندگی میں تو ہم نے بحری جہاز کے پانی پر تیرنے کے بارے میں سوچا تھا تو غش کھا گئے تھے کجا کہ اس دیوہیکل ہوائی جہاز میں اڑنا! خیر جیسے تیسے کر کے ٘منزل تک جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ داخل ہوئے ہی تھے کہ ایک بھلی سی خوش پوش خاتون نے ہمیں ایک سو پینتالیس نمبر کی نشست پہ بٹھا دیا۔ نشست کیا تھی میاں، ہمیں تو دہلیٔ مرحوم کا تخت یاد آ گیا۔ پھر وہی خاتون ہمارے لئے رنگ رنگ کے مشروب اور اشیائے خورد لے آئیں (لگتا تھا کہ جہاز ان کے مجازی خدا کا ہے جو اتنی خاطر مدارات کر رہی ہیں!)، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اس جہاز کی خادمہ ہیں جنہیں ‘فضائی میزبان’ کہا جاتا ہے۔ نشست کو دیکھ کر ہم سوچ رہے تھے کہ جب رعایا کے لئے ایسی نشست ہے تو باشاہ کا کیا عالم ہو گا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارے ضمیر سے بآوازِ بلند ایک ‘ زنانہ’ آواز آئی “پی آئیے! میں خوش آمدید”
ہائیں! یہ ہمارے ضمیر کی آواز اور صرف و نحو دونوں خراب ہو گئیں!! پی آئیے ۔ ۔ میں۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ارے میاں! الفاظ تو اردوئے معلیٰ کے ہی ہیں مگر متن کچھ واضع نہیں ہو رہا۔ ۔ ۔
ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھے صاحب نے ہماری حیران و پریشان صورت دیکھی اور کچھ پہچاننے والے انداز میں بولے “ارے! آپ توو وہ ڈرامے والے مرزا غالب کی طرح لگ رہے ہیں!”
“میاں! لگ رہے ہیں کیا مطلب؟ ہم مرزا اسد اللہ خاں غالب ہی ہیں۔” اب کے حیران ہونے کی باری ان کی تھی۔ پھر جب ہم نے سفر کے دوران انہیں تفصیلاً بتایا کہ ہم عدم آباد سے خصوصی دعوت پر اسلامی جمہوریہ پاکستان جا رہے ہیں تو وہ ہمیں سمجھاتے ہوئے بولے کہ یہ آواز لاؤڈ اسپیکر یعنی ‘ آلۂ مکبر الصوت’ سے آرہی ہے اور ہوائی میزبان کی ہے۔ہم نے ااس جملے کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پی آئیے نہیں پلکہ ‘پی۔آئی۔اے’ ہے، انگریزی زبان میں پاکستانی ہوئی کمپنی کا نام۔
خیر صاحبو! ہوئی کمپنی بہادر کا نام ‘پی۔آئی۔اے’ نہیں بلکہ ‘کھا پی کے آئیے’ ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں کا کھانا تو ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترا، نہ دہلی کے کلچے، نہ لاہوری چرغہ، اور نہ ہی بمبئی بریانی، کچھ بھی نہ ملا!
ہوائی جہاز میں ہم نے صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیا جبکہ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا چند قدم کا فاصلہ ہم نے کوئی آدھے پہر میں طے کیا ہو گا۔ ہمارا ٹرنک، پان دان حتیٰ کہ اگالدان تک کھنگال کے رکھ دیا ان نیلی وردی والے سپاہیؤں نے! ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہوائی اڈے پر ہمارے استقبال کے لئے کوئی نہ کوئی نمائندہ موجود ہو گا۔ باہر نکلے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارا پاکستان ہی آج واپس آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اتنا رش کہ الامان الحفیظ! نطر دوڑائی تو ایک شخص ہمارے نام کی تختی اٹھائے کھڑا نظر آیا۔ جلّی حروف اور خالص نستعلیق خط میں اپنا نام لکھا دیکھ کر سفر کی تکان دور ہو گئی۔

نوٹ: اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو تبصرہ ضرور کریں تا کہ میں اس مضمون کو آگے بڑھا سکوں۔ اور اگر پسند نہیں آئی تو بھی تبصرہ ضرور کریں ورنہ میں مزید لکھنے سے ہرگز باز نہ آؤں گا!


Read On

ہر جگہ میرے چمکنے سے!۔

1 تبصرہ (جات)۔
پچھلے مہینے علامہ اقبالؒ کی برسی پر بہت سوچ بچار کے باوجود بھی میرے ذہن میں لکھنے کے لیے کچھ نہ آیا۔
آجکل نجی چینلوں پہ ایک کمرشل بہت چل رہی ہے جو اقبال کی مشہورِزمانہ نظم “بچے کی دعا” کے ایک مصرعے سے شروع ہوتی ہے۔ مزارِاقبال کے احاطے میں سفید اجلے لباس میں سکول کے بچے بلند آواز میں پڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے۔ ۔۔ ۔
کچھ دن تک یہ اشتہارایسے ہی چلتا رہا یعنی صرف اس مصرعے تک۔ ۔ ہم سوچتے رہے کہ شاید کوئی نیا پروگرام ہے یا کلامِ اقبال پر کوئی نئی ویڈیو بنائی گئی ہے یا شایداقبال شناسی کا نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے عوام میں۔ ۔ لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا جب مکمل اشتہار دیکھا۔
یہ اشتہار ہے ” گائے سوپ” کا، جن کا پیغام ہے:
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
گائے سوپ اجلا بنائے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔!
ایک وہ زمانہ تھا (جنہیں میرا دوست “سچّا زمانہ” کہہ کر ‘ یاد ‘ کرتا ہے، حالانکہ عمر میں مجھ سے بھی چھوٹا ہے!) جب قوم کے قلب و نظر کی پاکیزگی کی لیے کلامِ اقبال کا سہارا لیا جاتاتھا، اور اب قوم کی ” چڈّی و بنیان” کی صفائی کے لیے۔ ۔ ۔!!
بڑھتی ہوئی اشتہاربازی(یا کمرشلائیزیشن) سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ کل کو کوئی نازنین اپنے لمبے گھنے بال سنوارتے ہوئے کسی شیمپو کے اشتہار میں کہے گی: “گیسوئے تابدار کو اور تابدار کر”۔ ۔ ۔ ۔۔!۔

نوٹ: یہ تحریراردو ٹیک پر میرے بلاگ 'مختصر مختصر' سے یہاں منتقل کی گئی ہے، اس پر کیے گئے تبصرے پڑھنے کے لیے آپ اس ربط پہ کلک کریں۔ تکلیف کے لیے بہت معزرت!۔
Read On

پانچ چیزیں

0 تبصرہ (جات)۔ Thursday, April 30, 2009
پانچ چیزیں

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ "اے مہاجروں کی جماعت!پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلاء ہو گئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی۔) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (بری چیزیں ) تم تک پہنچیں۔
۱۔ جب بھی کسی قوم میں بے حیائی(بد کاری وغیرہ) اعلانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔
۲۔ جب بھی وہ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو ، ان کو قحط سالی ، روزگار میں تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سزا دی جاتی ہے۔
۳۔ جب وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا بند کر دیتے ہیں تو ان سے آسمان کی بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوں تو انہیں کبھی بارش نہ ملے۔
۴۔ جب وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا عہد توڑتے ہیں تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلّط کر دیے جاتے ہیں، وہ ان سے وہ کچھ چھین لیتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
۵۔ جب بھی ان کے امام (سردار اور لیڈر) اللہ کے حکم و قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتےتو اللہ تعالیٰ ان میں آپس کی لڑائی ڈال دیتا ہے۔"

اس روایت میں آپ ﷺ نے جن پانچ برائیوں کا ذکر کیا ہے، وہ کسی نہ کسی شکل میں آجکل کے معاشرے میں موجود ہیں۔ کچھ تو اپنے پورے جوبن کے ساتھ رچ بس گئی ہیں اور اس روایت کی رو سے جو نتائج بتائے گئے ہیں ،ان کی نشاندہی کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ مصائب و تکالیف کے ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔اگر عقائد و اخلاق کی ان خرابیوں سے پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ظاہری اسباب کو تبدیل فرما دیتا ہے۔
Read On

طارق عزیز کی پنجابی شاعری -- انتخاب ۲

3 تبصرہ (جات)۔ Saturday, March 28, 2009
بچوں کیلئے ایک نظم

اپنے دِل وِچ بہت محبت
کڑیاں لئی نہ بھریئے
ہور وی کَم نے دُنیا اُتّے
اِکّو ای کَم نہ کریئے


اِک نظم فرزانہ لَئی

چھوٹیاں چھوٹیاں گلّاں اتّے
اَینویں نہ تو لَڑیا کر
ایڈیاں سوہنیاں اَکھاں دے وِچ
ہنجو نہ تو بھریا کر
جیہڑے کَم نئیں تیرے چَندا
تُو اوہ کَم نہ کریا کر


ھمزاد دا دُکھ -- طارق عزیز( )


Read On

فن نعت گوئی

0 تبصرہ (جات)۔ Tuesday, March 10, 2009
فن نعت گوئی: عید میلاد النبی کے موقع پر خصوصی مضمون

March 9, 2009
اردو وائس آف امریکہ

نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے، دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مثلاً حمد، اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔

اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں:

”نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ (ادبی نقوش صفحہ 284)۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باقی مضمون وائس آف امریکہ کی اردو سائٹ پر ملاحظہ کیجیئے۔
Read On

علامہ محمد اقبالؒ کی ایک فارسی نظم کا ترجمہ (محاورہ ما بین خدا و انساں)

2 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, March 4, 2009
محاورہ ما بین از خدا و انساں

(خدا)

جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تُو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تُو شمشیر و تِیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را

(انسان)

تُو شب آفریدی ،چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
( ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

اردو ترجمہ:
(خدا انسان سے گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے انسان!) میں نے تو (ساری ) دنیا کو ایک ہی طرح کے پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا(مگر) تو نے اِسے ایران، تاتار اور حبشہ میں تقسیم کر دیا۔ میں نے زمین سے خالص فولاد پیدا کیا تھا (مگر) تو نے اس سے تلوار، تِیر اور بندوق (جیسے مہلک ہتھیار) بنا لئے۔ تُو نے باغ کے پودوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑا بنایا اور گیت گانے والے پرندوں کے لئے پنجرہ بنا لیا۔
(اللہ تعالیٰ کی بات کے جواب میں انسان خدا سے کہتا ہے کہ اے خدا!)تُو نے رات بنائی تو میں نے (اُس رات کو روشن کرنے کے لئے) چراغ بنا لیا، تُو نے مٹی پیدا کی میں نے اس مٹی سے پیالہ بنا لیا۔ تُو نے بیاباں، پہاڑ اور جنگل پیدا کیے تو میں نے پھولوں کی کیاریاں، چمن اور باغ بنائے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہے، میں وہ ہوں جو زہر سے دوائے شفا بناتا ہے۔

Read On

طارق عزیز کی پنجابی شاعری۔ ۔ انتخاب

4 تبصرہ (جات)۔ Wednesday, February 18, 2009
طارق عزیز کی پنجابی شاعری سے انتخاب:

ربِّ کریم

ایسے اسم سکھا دے سانوں
ہرے بھرے ہو جائیے
گہرے علم عطا کر سانوں
بہت کھرے ہو جائیے


رَبِّ اَرِنی

اَج دی رات میں کلّا وَاں
کوئی نئیں میرے کول
اَج دی رات تے میریا ربّا
نیڑے ہو کے بول


سچّا شرک

دُور پرے اَسمان تے
رَب سچّے دا ناں
ہیٹھاں ایس جہان وِچ
بس اِک ماں اِی ماں


بلوچا وے۔ ۔ ۔

جے کوئی میرے جیہا ملے تاں
اوس نال پیار ودھاویں ناں
اوس دے درد ونڈھاویں ناں
اوس نوں اِنج تڑفاویں ناں
اوّل میرے جیہے کسے نال
پیار دی پینگ ودھاندے نئیں
جے تقدیریں اکھ لڑ جاوے
فیر او اکھ چروندے نئیں
ساری حیاتی اوس بندے نوں
اپنے دلوں بھلاؤندے نئی


( جاری ہے)

Read On

میں ضرور آؤں گا ــ فلسطین کے نام

4 تبصرہ (جات)۔ Sunday, January 25, 2009
ایک دن
ان لہو میں نہائے ہوئےبازوؤں پہ
نئے بال و پر آئیں گے
وقت کے ساتھ سب گھاؤ بھر جائیں گے
ان فضاؤں میں پھر اس پرندے کے نغمے بکھر جائیں گے
جو گرفتِ خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے سرخ پھولوں سے یہ کہ گیا
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروں کی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹاؤں گا
بادلوں کی فصیلیں چراتا ہو
امیں ضرور آؤں گا
میں ضرور آؤں گا۔ ۔ ۔
Read On

ایک تصویر، ایک سوچ

Tuesday, January 13, 2009

گورنمنٹ کالج لاہور ( جی سی یو) کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی راہداری میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ سال خوردہ دیواروں پر لگی فریم شدہ تصاویر ہیں جن میں سے ایک طرف تو ڈیپارٹمنٹ کے قیام (جس کا سنہ مجھے یاد نہیں !) سے اب تک کے تمام گریجویٹس کی گروپ فوٹوز ہیں جن میں سے اکثر اب فیکلٹی میں نظر آتے ہیں(لیکن ذرا بدلے حلیے کے ساتھ!) اور دوسری جانب کسی خاص شخصیت کی زندگی کے مختلف ادوار کی تصاویر لگی ہیں۔ بچپن، جوانی اور پھر بڑھاپے کی کئی تصاویر دیوار کی زینت ہیں۔
لیکن ایک تصویر جو ہر ناظر کو کچھ دیر کیلئے اپنی جانب ضرور متوجہ کرتی ہے وہ ایک گروپ فوٹو ہے جس میں ایک ہی طرح کا انگریزی لباس پہنے چھ، سات شخصیات کھڑی ہیں اور ان غیر ملکی شخصیات کے درمیان سیاہ شیروانی، سفید لٹھے کی شلوار، پاؤں میں تلّے والا کھسہ اور سر پہ خالصتاً پنجابی طرز کی 'اچّے شملے' والی پگ سجائے ایک مسکراتا چہرہ نظر آتا ہے۔ تصویر کے نیچے دی گئی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ یہ اور کوئی نہیں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جو ۱۹۷۹ ءکےنوبل انعام یافتہ حضرات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی اور کوئی بات میرے ذہن میں اس طرح محفوظ نہیں جیسے 'سلام گیلری' میں لگی
وہ تصویر!
ہر بار راہداری سےگزرتے ہوئے اس تصویر پر میری نظر ٹھہر جایا کرتی تھی اور عجیب سا فخر اور گداز محسوس ہوتا تھا اس 'اُچّے شملے' کو دیکھ کر۔ اُس وقت میں وہاں سے ایف ایس سی کر رہا تھا اور شاید اس سے پہلے میں نے کبھی عبدالسلام کا نام بھی نہ سنا تھا۔
وہیں معلوم ہوا کہ پروفیسر عبدالسلام نے اپنی لیبارٹری کا قیام اور تمام تحقیقی کام بیرونِ ملک کیا تھا۔ اس وقت ذہن میں آتا تھا کہ اچھے پاکستانی تھے یہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی بجائے اٹلی میں بسیرا کر لیا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں واضح ہوئیں، کچھ سنی سنائی کچھ پڑھی پڑھائی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور اس وقت کی حکومت سےاختلافات اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پروہ بیرونِ ملک قیام پذیر رہے۔اُن کے جانے کے بعد کسی نے اُنہیں یاد نہ رکھا۔۔۔
جب اُنہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیاتو ہندوستان سمیت کئی ممالک سے اُنہیں اعزازی شہریت دینے کی پیشکش کی گئی لیکن اُنہوں نے پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ ہونے کے اعزاز کو ترجیح دی۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے اُنہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔ عوام کی جانب سے بھی ملے جلے جذبات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جن کو میں فی الحال دانستہ اِسکپ کر رہا ہوں۔
یہ سب کچھ لکھنے کی اصل وجہ عبدالسلام نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ وہ سوچ ہے جو ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی تصویر دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں پیدا ہوئی کہ قومی ہیروز کو ان کا اصل مقام نہ دینے کی وجہ مذہب یا عقائد نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور ہی معمّہ ہے۔ کیا پنجاب کی محبت، سر
حد کی جرأت، بلوچستان کی غیرت اور سندھ کی اُلفت سب مل کر بھی پاکستانی قوم میں وفا پیدا نہیں کر سکے؟ کیا ایسا ہی ہے؟؟
Read On